اسکو فوری میرے سامنے قتل کردو’مسلمان حکمران کا فیصلہ
لاہور(ایس چودھری)انصاف کے بغیر ریاستوں کا نظام نہیں چلتا ۔آج دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے ملکوں میں نظام عدل کی وجہ سے فلاحی ریاستوں کا تصور پیش کرتی نظر آتی ہے۔اس کے برعکس پاکستان میں عدل و انصاف نظریہ ضرورت بن چکا ہے۔اس خطہ میں عدل و انصاف کا بول بالا کرکے مسلمان سلاطین نے بڑی نادر مثالیں قائم کی تھیں جو بتدریج ناپید ہوگئیں۔مسلمان شہنشاہ عدل کے معاملہ پر کیا کرتے تھے اسکی ایک جھلک تغلق خاندان کے تیسرے حکمران فیروز شاہ تغلق کے دور میں دیکھی جاسکتی ہے۔اس نے 1351 ء تا8 138 ء حکمرانی کی ،وہ خونی مجرموں کو ہرگزرعایت نہیں دیتا تھا اور فوراً ان سے قصاص لیتا تھا۔چاہے وہ اسکا کتنا ہی قریبی اور عزیز کیوں نہ ہوتا۔
یوسف بقرا سلطان محمد تغلق کے عہد میں صاحب جاہ و مراتب اور امرائے محمد شاہی میں بے حد ممتاز و سرفراز رہتا تھا۔اسکے دو فرزند تھے جن کی پرورش و پرداخت میں یوسف بے حد کوشش کرتا تھا۔ یہ دونون فرزند علیحدہ علیحدہ ماؤں سے تھے۔
فیروز شاہ کے عہد میں یوسف کے دونوں فرزند قصبہ یوسف پور کو جو یوسف بقرا کی قدیم جاگیر تھی روانہ ہوگئے۔بڑے بھائی کا ارادہ تھا کہ چھوٹے بھائی کو قتل کرکے اس کو دفع کرے لیکن اس کو موقع نہ ملتا تھا۔یہ دونوں بھائی یوسف پور گئے اور چند روز کے قیام کے بعد بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو قتل کیا۔
مقتول کی والدہ نے بارگاہ شاہی میں فریاد کی ۔ فیروز شاہ اس واقعہ کو سن کر بے حد حیران ہوا۔ اس لئے کہ قاتل پر بادشاہ بے حد مہربان تھا۔ وہ دربار شاہی کے مقرب افراد میں شمار ہوتا تھا۔ فیروز شاہ نے بے حد غور و فکر کے بعد اسے طلب کیا اورحکم دیا کہ قاتل کودربار کے روبرو قتل کیا جائے۔تغلق شاہ کا کہنا تھا کہ انصاف کے معاملہ میں مجھ سے کوئی رعایت کا سوچے بھی نہ۔ باوجود یکہ بادشاہ یوسف بقرا کے بڑے لڑکے پر بے حد مہربان تھا لیکن بریں ہمہ اس سے قصاص لیا اور معاف نہ فرمایا۔