بارش۔ خدا کی رحمت
کالم :- عبدالقادر حسن
میں ایک بارانی کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوا جس کی گزر بسر خالصتاًکاشتکاری کی ہی مرہون منت تھی۔ مویشیوں سے دودھ گھی کا بندو بست ہو جاتا جب کہ سواری کے لیے اعلیٰ نسل کی گھوڑیاں اصطبل میں موجود رہتی تھیں۔ یوں میں ایک کاشتکار گھرانے کی جم پل ہوں۔ مگر اب میرا پیشہ قلمکاری ہے اور اس قلمکاری نے برسوں سے زمین کے ساتھ عملی تعلق کو کمزور ضرور کر دیا ہے لیکن آج جب بھی لاہور کے آسمان پر بادل گھر آتے ہیں تو فون کر کے گاؤں میں موسم کی خبر لیتا ہوں۔
کبھی بارش کی خبر پاتے ہی جی خوش ہو جاتا ہے اور کبھی گندم کی برداشت کے موقع پر بارشی موسم کی خبر پا کر پریشان ہو جاتا ہوں۔ خون میں شامل زمین سے تعلق کو جوڑے رکھنے کو اور مضبوط بنانے کے لیے لاہور میں گاؤں کی گندم کا آٹا کھاتا ہوں۔ ہر سال میری فرمائش پر گاؤں سے میرا بیٹا گندم منگواتا ہے اور اسے لاہور کی مشینی چکی سے پسوا کر مجھے کھلانے کا بند وبست کرتا ہے تاکہ توانائی قائم رہے اور اس توانائی سے میرا قلم چلتا رہے۔
ان دنوں یہ حالت ہے کہ میں کبھی اپنے اور اپنی پاکستانی قوم کے اعمال کو دیکھتا ہوں تو کبھی رحمت کے ان موسلا دھار برسنے والے قطروں کو جو ہمارے وطن کی کئی ماہ سے پیاسی زمینوں پر گر رہے ہیں اور ہمارے لیے ایک نئی زندگی کی خوشخبری لا رہے ہیں۔ بلا شبہ اللہ تبارک تعالیٰ رحیم و کریم ہے وہ ہمارے اعمال کو نہیں اپنی رحمت کو دیکھتا ہے اور یہ اس کی اپنی حکمت ہے کہ وہ کسی کو کتنی سزا دیتا ہے یا کسی کی رسی کو کتنا دراز کرتا ہے۔
رازق اس کی ذات ہے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے اور جو کوئی زمین پر چلتا ہے اس کا رزق اس کے ذمے ہے، بات رزق تلاش کرنے کی ہے تلاش کرو گے تو ملے گا چھپر پھاڑ کر نہیں ملے گا یہی اصول ہے اور اگر آزمائش میں پڑو تو صبر اور شکر کروکہ اسی میں فلاح ہے۔
گزشتہ کئی ماہ کی خشک سالی کے بعد اللہ کی رحمت کا نزول ہوا ہے پاکستان میں ہر سال بارشیں پہلے سے کم ہوتی جا رہی ہیں اور قحط کی کیفیت ہوتی جارہی ہے، لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ ہماری بارانی زمینوں پر کئی سال ایسے بھی گزرے جب بارش نہ ہوئی اور اگر ہوئی بھی تو بے وقت کی ہوئی چنانچہ سال قحط کی کیفیت میں گزر گیا۔ کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور چرند پرند نے بھی صبرکے ساتھ وقت گزارا۔ میں نے اس زمانے کے پیاسے پرندے بھی دیکھے ہیں جن میں پیاس کی شدت سے اڑنے کی طاقت باقی نہ رہی وہ نڈھال ہو کر مر گئے۔
جانوروں کو دور دراز جا کر پانی پینا پڑتا اور اس میں پورا دن ہی گزر جاتا۔ انسانوں کا حال بھی ان سے کچھ مختلف نہ رہا، زمین خشک رہی ہر طرف دھول اُڑتی رہی اور دیکھا کہ قحط زدہ علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر گئے۔ جہاں نہریں بہتی ہیں اور زمینیں دریاؤں کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں وہاں بھی پانی کی قلت ہو جاتی ہے۔
دریاؤں میں پانی کی قلت ہو تو نہروں میں بھی کم ہی ہو گا۔ ہوتا یہ ہے کہ نہری پانی فصل کو سہارا دیتا ہے لیکن فصل کی پرورش اور اس میں برکت بارشوں سے پڑتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے سے ان میں جان نہیں پڑتی اور ان کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی یا بارش یہ کسی بھی فصل کی زندگی ہیں۔ سردیوں کی سردی زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے تو گرمیوں کی تپتی دھوپ ا س کو جلا بخشتی ہے۔
زراعت موسموں کی محتاج ہے اور موسم کی برکات اللہ کی محتاج ہیں شکر ہے کہ اللہ کا فضل و کرم کسی کا محتاج نہیں وہ کسی کے اعمال نہیں دیکھتا ورنہ ہم پاکستانیوں پر رحمت کے دروازے شاید ہی کھلتے۔ ہم میں کوئی نہ کوئی نیک پاکستانی ابھی موجود ہے جس کی برکت سے اللہ کی ناراضگی دور ہوئی ہے اور اس کی رحمت برس پڑی ہے۔
پاکستانی قوم زوال کے دور سے گزر رہی ہے۔ ہم ایک گستاخ قوم بنتے جا رہے ہیں۔ اللہ کے احکامات اور نبی ؑ کی سنت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے قانون نام کی کوئی شئے موجود نہیں اور اگر موجود ہے تو صرف غریبوں اور مظلوموں کے لیے، جھوٹ کے سہارے اپنے سارے کام کرتے ہیں۔ ناپ تول میں کمی تو ہمارا روزمرہ کا معمول ہے، دھوکا دہی عام ہو چکی ہے، بڑے چھوٹے کی تمیز اور بزرگوں کا احترام گئے وقتوں کی بات ہے۔ ہمارے انھی اعمال کی وجہ سے ہمیں غلط حکمران ملے اور یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دئے جائیں گے۔
ہم پاکستان کو ملک خداداد کا درجہ دیتے ہیں لیکن ہم نے جو سلوک اس ملک کے ساتھ کیا ہے وہ اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ لیکن جب اپنی بد اعمالیوں کے باوجود اللہ کی رحمت کو اپنے اُوپر موسلا دھار برستا دیکھتے ہیں تو اس کی بے پایاں رحمت کے خزانوں کا شمار نہیں کر پاتے۔
مہینوں بعد ہونے والی بارش کے بعد زمین کے نیچے تک پانی پہنچا ہے اور طویل خشک سالی کا خاتمہ ہوا ہے۔ اگر قوم بارش کے لیے نماز پڑھتی ہے تو ہمیں اس باران رحمت کے لیے شکرانے کی بھی نماز پڑھنی چاہیے کہ ہمارے محکمہ موسمیات کے مطابق تو بارشیں اگلے سال جنوری میں ہی متوقع تھیں۔ لیکن ان کو شاید معلوم نہیں کہ اللہ کو کسی بھی وقت اپنی مخلوق پر رحم آجاتا ہے اور وہ اپنی رحمتوں کانزول شروع کر دیتا ہے۔ اللہ کا فضل و کرم جاری رہے اس کے لیے ہمیں اسی کی ذات کے سامنے سر بسجود ہونا چاہیے تا کہ اس کی رحمت برستی رہے اور ہمارے کھیت پانی سے بھرے رہیں اور ان سے پیدا ہونے والا اناج ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا رہے۔