حدیبیہ
کالم:- حسن نثار
صلح حدیبیہ تاریخ اسلام کا ایک فیصلہ کن موڑ تھاحدیبیہ پیپر ملز کیس اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہوگا؟نہیں ہوگا؟۔واقعہ حدیبیہ کو ’’فتح مبین‘‘ بھی کہا جاتا ہے تو آج کیوں نہ حدیبیہ کیس کے بہانے اس فتح مبین کو یاد کریں جس نے انسانی تاریخ کے دھارے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کردئیے۔یکم ذی قعد سن6ہجری آقامحمدﷺ نے مکہ مکرمہ کا قصد فرمایا۔مہاجر و انصار چودہ سو کی تعداد میں تھے، کچھ غیر مسلم قبائل کے افراد بھی حضورمحمدﷺ کے ہمراہ تھے۔ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی(وہ جانور جسے منیٰ میں ذبح کرتے ہیں) کو قلاوہ پہنایا۔ عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگ جان جائیں کہ آپ صرف عمرہ کےلئے جارہے ہیں جنگ کے لئے نہیں۔اہل مکہ نے سوچا مدینہ سے حملے کے لئے آرہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کو روکنے کا فیصلہ کرلیا۔قریش کی طرف سے خالد بن ولید200سواروں کے ساتھ غمیم پہنچے جو آقا ﷺ کے پڑائو سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر تھا۔صحابہ سے مشاورت کے بعد آپؐ نے رستہ تبدیل کرلیا جو پہاڑیوں میں سے ہو کر گزرتا تھا۔ خالد بن ولید کو جب رستہ تبدیلی کی اطلاع ملی تو فوراً مکہ جاکر قریش کو آگاہ کیا۔قریش نے پریشان ہو کر سوچا کہ مسلمان مکہ کے دروازے تک پہنچ گئے تو روکے نہ جائیں گے، کسی طرح عمرہ سے روکا جائے سو چند ایسے معززین کو حضور اکرمﷺ کے پاس بھیجا جائے جو ان سے مکالمہ کرنے کے ساتھ ساتھ حالات اور افرادی قوت کا جائزہ بھی لیں۔قریش نے قبیلہ خزاعہ جو آپؐ کا حلیف بھی تھا ،کے سردار بدیل بن ورقہ کو چند لوگوں کے ساتھ بھیجا، اس نے آکر کہا کہ قریش بہت بڑا لشکر تیار کررہے ہیں بہتر ہوگا آپؐ واپس چلے جائیں۔ آپ ؐنے فرمایا ہم جنگ نہیں عمرہ کے لئے آئے ہیں، اگر قریش چاہیں تو ان کے لئے مدت صلح مقرر کردیتا ہوں جس کے درمیان کوئی ایک دوسرے سے تعرض نہ کرے گا۔ پھر جو اللہ کو منظور ہو لیکن اگر قریش کو جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو پھر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اللہ کی مرضی کے نفاذ تک ان سے جنگ کروں گا۔بدیل نے یہ باتیں قریش کو بتائیں تو پھر انہوں نے مکرز بن حفص پھر جلس بن علقمہ اور پھر عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا۔ سب نے واپس آکر قریش کو سمجھایا کہ مسلمانوں کو عمرہ سے مت روکیں لیکن انہوں نے ستر یا اسی نوجوانوں کو بھیجا جنہیں محافظ ابن مسلمہ نے گرفتار کرلیا۔ رسول اللہﷺ نے معاف کرتے ہوئے رہا فرما دیا اور ایک بار پھر صلح کی پیشکش کی۔ حضرت عثمانؓ کو اس پیغام کے ساتھ مکہ بھیجا کہ ہم جنگ نہیں، صرف عمرہ کے لئے آئے ہیں، قریش نے انہیں باہمی مشاورت تک کے لئے روک لیا۔ ادھر حدیبیہ میں جہاں مسلمانوں کا پڑائو تھا یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ شہید کردئیے گئے۔حضوراکرمﷺ نے رنج وملال کے عالم میں کیکر کے نیچے بیعت لی کہ جنگ ہوئی تو رخ نہیں پھیریں گے۔ قریش کو علم ہوا تو خوفزدہ ہو کر سہیل بن عمرو کو صلح کے لئے بھیجا جو بھلے آدمی تھے۔ طویل گفتگو کے بعد فریقین میں صلح کی یہ شرائط طے پائیں۔نمبر1:مسلمان اس سال عمرہ نہیں کریں گے بلکہ واپس جائیں گے۔ اگلے سال آئیں گے3روز قیام کریں گے، تلواریں میانوں میں بند ہوں گی۔ قریش کوئی رکاوٹ پیدا نہ کریں گے۔نمبر2:فریقین10سال تک جنگ نہ کریں گے۔ بالکل امن و امان میں رہیں گے۔نمبر3:تمام عرب قبائل آزاد ہوں گے جس فریق سے معاہدہ کرنا ہو، کرلیں جو جس کا حلیف بننا چاہے گا وہ اس کا ایک جزو سمجھا جائے گا۔ایسے کسی قبیلہ پر زیادتی اس کے فریق پر تصور ہوگی۔نمبر4:قریش کا جو شخص اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد مصطفیٰﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن مسلمانوں میں سے جو بھاگ کر قریش کے پاس آئے گا، وہ اس کی واپسی کے پابند نہ ہوں گے۔مزید تفصیلات میں جائے بغیر عرض ہے کہ بہت سے صحابہ کو یہ معاہدہ ناگوار گزرا خصوصاً حضرت عمر بن خطاب۔ مختصراً یہ کہ حدیبیہ میں دو ہفتہ قیام کے بعد نبی پاکﷺ واپس مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔مدینہ کے قریب پہنچے کہ سورہ فتح نازل ہوئی۔ آپؐ نے صحابہؓ کرام کو اکٹھا کرکے سورہ فتح سنائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کوفتح مبین قرار دیا۔ حضرت عمر بن خطاب جو ابتداء میں اس فتح مبین کو نہ سمجھ پائے تھے، زندگی بھر اس پر متاسف رہے۔اس معاہدہ نے مسلمانوں کو مضبوط و مستحکم کیا۔ دعوت تبلیغ میں یکسوئی اور تیزی آگئی۔ اسی کے باعث فریقین میں آمد روفت شروع ہوگئی جس سے مشرکین مکہ و دیگر پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں کا کفار کے بندے واپس کرنا اور قریش کا نہ کرنے والی شق نے مسلمانوں کو مضبوط تر کیا کہ مسلمان تو جاتے ہی نہ تھے لیکن مکہ سے نکلنے والے مسلمانوں نے مدینہ کی بجائے ساحل سمندر پر ایک مقام کو مرکز بنالیا اور مکہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں پر حملے شروع کردئیے۔ قریش نے تنگ آکر پیغام بھیجا کہ انہیں اپنے پاس مدینہ بلالیں، ہم انہیں واپس نہ لیں گے۔ یوں اس شق کو خود منسوخ کیا۔انسانی دماغ بھی عجیب ہے——–کہاں حدیبیہ پیپر مل کیس اور کہاں فتح مبین صلح حدیبیہ۔ کیس سے کچھ نکلنے نہ نکلے، مجھے فتح مبین یاد کرنے کرانے کی وجہ مل گئی۔غور و فکر کرنے والوں کے لئے تو قدم سے عدم تک نشانیاں ہی نشانیاں اور اشارے ہی اشارے ہیں لیکن صرف غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔