ازبان سنبھال کے!
سہیل انجم
ابھی ابھی 9 نومبر یعنی علامہ اقبال کا یوم پیدائش، جس دن یوم اردو بھی منایا جاتا ہے، گزرا ہے لہٰذا گفتگو اسی موضوع سے شروع کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں یوم اقبال منانے کا آغاز بہت بعد میں ہوا البتہ پاکستان میں ایک زمانے سے منایا جا رہا ہے۔ وہاں اس دن قومی تعطیل ہوا کرتی تھی۔ لیکن دو تین سال قبل تعطیل منسوخ کر دی گئی، پھر بحال بھی کر دی گئی۔ لیکن امسال پھر اسے ختم کر دیا گیا۔ اس کا اعلان پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کیا۔ چونکہ ان کے نام میں اقبال بھی شامل ہے اس لیے شاید انھوں نے یہ تصور کر لیا ہے کہ اقبال سے متعلق فیصلے کرنے کا کاپی رائٹ انھی کے پاس ہے۔ خیر ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس دن پاکستان میں تعطیل ہو یا نہ ہو۔ لیکن انھوں نے اس کی جو وجہ بتائی وہ بڑی مضحکہ خیز ہے۔ اپنے حکم نامہ پر انھوں نے اقبال کا ایک شعر بھی درج کیا اور غلط درج کیا۔ شعر یوں ہے: میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو، نہیں ہے بندہ حُر کے لیے جہاں میں فراغ۔ لیکن انھوں نے ’فراغ‘ کو ’فراق‘ لکھ مارا۔ اس پر پاکستان کے ایک طنز و مزاح نگار میر شاہد نے ’اقبال دیر سے آتا ہے اس لیے چھٹی نہیں ملی‘ کے زیر عنوان احسن اقبال کی خاصی خبر لی ہے۔ انھوں نے ڈان نیوز میں لکھا کہ ’احسن اقبال خود کو اقبال سے بھی زیادہ یعنی ’احسن اقبال‘ سمجھتے ہیں اسی لیے اپنے ’کام‘ میں کچھ ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ اقبال کی چھٹی ختم کرتے کرتے وہ اقبال کے شعر کی بھی چھٹی کرگئے۔ شعر پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے یہ اقبال کا شعر نہ ہو فراق کا شعر ہو۔ لیکن احسن اقبال کچھ اس قدر احساسِ فراق (تنہائی) کا شکار ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا اور وہ علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی چھٹی ختم کرتے ہوئے قوم کو دلیل دیتے ہیں کہ علامہ اقبال اپنے یوم پیدائش پر چھٹی کبھی بھی پسند نہ کرتے۔ وہ تو کام پر یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے وفاقی حکومت نے یہ چھٹی ختم کردی۔ احسن اقبال صاحب اگر آپ نے کسی ’خاص‘ وجہ سے یہ چھٹی منسوخ کردی ہے تو برائے مہربانی اس کی وجہ تو کوئی ڈھنگ کی دیں۔ کیوں اپنا مذاق بنا رہے ہیں‘۔ در اصل یہ احسن اقبال کی غلطی نہیں ہے۔ پاکستان میں تو غلط اردو بولنے کا ایک رواج چل پڑا ہے۔ وہاں کے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار ’ذمے داری‘ کو ہمیشہ ’ذمے واری‘ بولتے ہیں۔ اس پر روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر اطہر علی ہاشمی نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ہم اسے چودھری نثار کی ’ذمے واری‘پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کیسی اردو بولتے ہیں۔ خیر یہ لوگ تو سیاست داں ہیں۔ یہ اگر غلط اردو بولیں تو قابل معافی ہیں لیکن اگر وہ لوگ بھی، جن کا پیشہ ہی اردو سے وابستہ ہے، بھیانک لسانی اغلاط کے مرتکب ہوں تو ان کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان میں اردو کے ایک پروفیسر صاحب بھی جنھوں نے اقبال پر پی ایچ ڈی بھی کی ہے، احسن اقبال کی مانند ایک فاش غلطی کر بیٹھے۔ انھوں نے ایک تقریر میں فرمایا کہ ’علامہ اقبال نے جو خامہ فُرسائی کی ہے‘۔ یہاں ف پر زبر ہوگا نہ کہ پیش۔ لیکن ان کو یہی اچھا لگا کہ اقبال کے ساتھ کچھ نیا ہونا چاہیے اسی لیے انھوں نے خامہ فُرسائی بول دیا۔ اسی طرح بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر غلوئے عقیدت میں علامہ اقبال کو بعض اوقات بڑی مضحکہ خیز پوزیشن میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایسے ایسے وزن اور بحر سے خارج اشعار گھڑ گھڑ کر علامہ کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں کہ شرم آنے لگتی ہے۔ اگر علامہ زندہ ہوتے تو شاید ایک اور ’مناجات‘ لکھتے اور اپنے ان عاقبت نا اندیش عقیدت مندوں سے نجات چاہتے۔ ایک اور پروفیسر صاحب کا قصہ سن لیجیے۔ ایک کتاب کی تقریب رسم اجرا میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ اس کتاب میں جو ’مثبتانہ‘ باتیں ہیں۔ انھوں نے مثبت کو مزید مثبت بنا کر اس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اس پر ہمارے برابر میں بیٹھے ہوئے اسی شعبے کے ایک دوسرے استاد ہماری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ان کی ’مثبتانہ‘ باتوں کو ’منفیانہ‘ مت لیجیے۔ ہم نے اس واقعہ کا ذکر اپنے ایک صحافی دوست سے، جو کہ اہل زبان بھی ہیں، کیا تو انھوں نے کہا کہ مثبت سے ان کا پیٹ نہیں بھرا تھا جو انھیں مثبتانہ بھی چاہیے۔ ہم نے کہا کہ شاید انھیں تقریر کا محنتانہ نہیں ملا ہوگا اسی لیے انھوں نے مثبت میں خورد برد کر دیا۔ ہمارے صحافی بھائی بھی بعض اوقات بڑی دلچسپ اور بعض اوقات بڑی بھونڈی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ دہلی کے ایک کثیر الاشاعت اردو اخبار میں اردو زبان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا کہ لوگ اردو کی ’شستہ گوئی‘ کے دیوانے ہیں۔ پہلے تو ہماری ناقص فہم یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ یہ کون سا لفظ ہے۔ ہم نے یہی سمجھا کہ شاید یہ بھی کوئی صنف ادب یا صنف شاعری ہے۔ لہٰذا رپورٹر نے شستہ گوئی لکھ کر ہمارے محدود علم میں اضافہ کیا ہے۔ ابھی تک ہم نے غزل گوئی، مرثیہ گوئی، داستان گوئی وغیرہ تو پڑھا تھا لیکن پہلی بار ’شستہ گوئی‘ پڑھا۔ فیروز اللغات کے مطابق شستہ کا معنی ہے صاف کیا ہوا، پاک خالص۔ شستہ تقریر یعنی سلیس اور صاف بات چیت۔ اسی طرح ایک دوسرے اردو روزنامہ میں ایم جے اکبر کو ’بیرون ملک وزیر مملکت‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی ہمارے علم میں ایک اضافہ ہے۔ لیکن اخبار سے یہ گزارش بھی ہے کہ براہ کرم ’اندرون ملک وزیر مملکت‘ کا بھی نام بتا دے۔ در اصل ایم جے اکبر وزیر مملکت برائے خارجہ ہیں۔ وزرا کے تین زمرے ہوتے ہیں: کابینہ وزیر، وزیر مملکت (آزادانہ چارج) اور وزیر مملکت (نائب وزیر)۔ بعض اوقات حکومتیں کسی کو خوش کرنے کے لیے ’وزیر بے قلمدان‘ بھی بنا دیتی ہیں۔ لیکن یہ اسثنائی صورت حال ہے۔ اسی اخبار نے اپنی ایک خبر میں جگہ جگہ ’راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ‘ لکھا۔ راجیہ سبھا پارلیمنٹ کا ایوان بالا ہے، یعنی پارلیمنٹ کا ہی ایک حصہ ہے۔ لہٰذا راجیہ سبھا رکن لکھ دینا کافی تھا۔ لیکن شاید خبر ساز نے مذکورہ ممبر کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے اس ترکیب کا استعمال کیا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ سیاست کا پارا تیز ہو گیا ہے۔ پارا تیز یا ہلکا نہیں ہوتا۔ وہ اوپر اور نیچے جاتا ہے۔ اگر گرمی زیادہ ہے تو وہ اوپر چڑھ جائے گا ورنہ نیچے ہی رہے گا۔ جسمانی اور موسمی حرارت ناپنے کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ سیاسی حرارت کے لیے اصطلاحاً اس کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اسے یوں کہا جائے گا کہ سیاسی پارا اوپر چڑھ گیا۔
پاکستان کے اطہر علی ہاشمی جو چار دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں ’خبر لیجے زباں بگڑی‘ کے زیر عنوان ’فرائڈے اسپیشل‘ میں ایک مستقل کالم لکھتے ہیں جس کا مقصد زبان کی اصلاح ہے۔ میں ان کے دو کالموں کے مختصر اقتباسات پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ انھوں نے شکوہ (اقبال کے شکوہ جواب شکوہ والا) اور شکوہ (دارا شکوہ والا) کے موضوع پر لکھا ہے کہ ’ٹی وی چینل ڈان کے نمائند ہ حیدرآباد علی حسن بڑے سینئرصحافی ہیں۔ وہ حیدرآباد کی ایک قدیم عمارت کا نوحہ کررہے تھے اور بتارہے تھے کہ کبھی یہ عمارت بڑی ”پرشکوہ“ تھی۔ چونکہ یہ نوحہ تھا اس لیے شکوہ بھی اس کے وزن پر تھا جیسے حلوہ، جلوہ، میوہ وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے وہ علامہ اقبال کی نظمیں ’شکوہ، جوابِ شکوہ‘ سے بہت متاثر ہیں چنانچہ عمارت کو بھی پرشکوہ ہی کہتے ہیں۔ جانے وہ شاہجہاں کے بیٹے داراشکوہ یا مغل شہزادے سلمان شکوہ کو کیا کہتے ہوں گے‘۔ وہ ایک دوسرے کالم میں لکھتے ہیں ’گزشتہ دنوں جسارت کی ایک خبر میں ’2 ٹوک‘ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔ اب شاید دوراہا، دو طرفہ، دوبار وغیرہ بھی اسی طرح لکھا جائے۔ کچھ تو اردو کی خبرایجنسیاں اپنا کمال دکھاتی ہیں اور کچھ نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ماہرین اور پھر پروف ریڈر صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہی کیا، بڑے معروف قلم کاروں اور ادیبوں کو مذبح خانہ اور مقتل گاہ لکھتے ہوئے دیکھا ہے جو چھپا بھی ہے۔ ان الفاظ میں خانہ اور گاہ غیر ضروری ہیں۔ مصالحہ اور مسالہ تو متنازع فیہ ہیں۔ اصل تو مصالحہ ہی ہے جس کا مطلب ہے ’اصلاح‘ کرنے والا۔ حکیموں اور ماہرین مطبخ نے طویل تجربے کے بعد ایسے مصالحے تیارکیے جو نہ صرف کھانے کی اصلاح کریں بلکہ ایک دوسرے کے نقصانات کا ازالہ بھی کریں۔ تاہم اب لوگوں نے سہولت کے لیے اسے ’مسالہ‘ کرلیا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ چیزیں مسل کر ڈالی جاتی ہیں۔ مگر اب مسلنے اور پیسنے کا جھنجھٹ ہی ختم ہوتا جارہا ہے‘۔ اطہر ہاشمی کے کالموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں اردو کا معاملہ ہندوستان سے بھی گیا گزرا ہے۔