دل سے احترام
کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال
جب تک بھارت جیسا مکار ملک دنیا کے نقشے پر قائم ہے پاک فوج سے محبت پاکستانیوں کے رگ وپہ میں رچی بسی رہے گی۔یہی پاکستانی سیاست اور معاشرت کا سب سے بڑا سچ ہے اور ہمیں اسی سچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔۴۱ اگست کو گاؤ ماتا کے ٹکرے ہونے کے تصوراتی دکھ نے بھارت کو پاکستان کا ازلی دشمن بنا رکھا ہے لہذا بھارتی قائدین کی حتی المقدور یہ کوشش ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر اپنی ازلی خواہش کی تسکین کا سا مان بہم پہنچائیں۔بھارت کی ساری سیاست اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے۔ان کی دوستی اور ان کی دشمنی کی بنیاد پاکستان کی دشمنی پر رکھی جاتی ہے۔ مشرقی پاکستان کو ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر نقش کرنے کے پیچھے بھی یہی حکمتِ عملی کار فرما تھی،پاکستان دو لخت تو ہوا لیکن مہا بھارت کی بھارتی خواہش پھر بھی اھوری رہی۔پختونستان کے مسئلے کوہوا دینے میں بھی یہی سوچ موجزن تھی جبکہ بلوچستان کو علیحدہ ملک بنوانے میں بھی یہی سوچ رنگ دکھا رہی ہے۔سنا ہے بھارت سینکڑوں کماننڈو دستے بلوچستان بھیجوا رہا ہے جن کا واحد ہدف صوبے میں انتشار کو ہوا دینا ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستانی عوام جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور انھوں نے جمہوریت کے لئے بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی عوام طالع آزماؤں اور فوجی حکمرانوں کے خلاف اس طرح سے مزاحمت نہیں کرتے جس طرح کی مزاحمت انگریزوں کے خلاف دکھائی تھی۔ ترکی میں طیب اردگان کے حامی جس طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹ گے تھے ویسا منظر پاکستان میں دیکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ترکی سے بالکل مختلف ہے۔ہمیں بودیوں والو ں کا سامنا ہے جبکہ ترکی کو اس طرح کے کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔مماثلت ایک جیسے افعال کی بنیاد ہو تی ہے اور چونکہ ترکی اور پاکستان میں لسانیت اور ہمسائیگی کے حوالے سے زمین و آسمان کا فرق ہے اس لئے یہاں پر ترکی جیسا مظاہرہ دیکھنا ممکن نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کا قیام ووٹ کی قوت کا سب سے بڑا شاہکار ہے اور اس کیلئے لاکھوں لوگوں کی قربانیوں سے تاریخ کے اوراق جگمگ جگمگ کر رہے ہیں اور پوری دنیا ان کی لازوا ل قربا نیوں پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہے۔قربانی ہمیشہ قابلِ تحسین ہوا کرتی ہے اوردنیا بہادروں کی نغمہ سرائی کرنا اپنے لئے فخر سمجھتی ہے۔انسان جب قربانی کا پیکر بنتا ہے تو حسنِ لازوال سے مالا مال ہو جاتا ہے۔یہ خوبصورتی خدو خال اور پیکرِ خاکی کی ظاہری ساخت کا نام نہیں ہوتی بلکہ یہ من کی اجلتا کا نام ہوتی ہے جس میں پوری انسانیت کا درد سمایا ہوتا ہے۔ بہادر لوگ ہمیشہ بڑی قربانی دیا کرتے ہیں اور تحریکِ پاکستان میں ہمارے آباؤ اجداد کے لہو میں ڈوبے ہوئے نذرانے یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ پاکستانی قوم موت سے نہیں ڈرتی۔کیاموت سے خوفزدہ ہونے والے لوگ لازوال قربانیوں کی داستانیں رقم کرسکتے ہیں؟کبھی نہیں۔قربانیاں بہادروں کا طرہِ امتیاز ہو اکرتا ہے اور پاکستانی قوم اس میں بالکل یکتا اور منفرد ہے۔پاک فوج اپنے سے چھ گنا بڑی طاقت کو للکارتی ہے تو اس وقت وہ موت کے حصار سے نکل جاتی ہے اورتب ہمیں اس پر بے تحاشہ پیار آتا ہے۔
ایک طرف ہم آزادی کیلئے اہلِ وطن کی عظیم جمہوری جدو جہد کو دیکھتے ہیں اور پھر دوسری طرف طالع آزماؤں کے خلاف ان کی خاموشی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے۔فوجی ڈکٹیٹروں کو برداشت کرنا پاکستانیوں کی نفسیات کے خلاف ہے لیکن وہ پھر بھی ایسا کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ فوجی ڈکٹیٹروں اور طالع آزماؤں سے سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی دھرتی اور مٹی سے محبت کرتے ہیں جس کے تحفظ کی ذمہ داری پاک فوج کے کاندھوں پر رکھی گئی ہے۔یہ جو پاک وطن ہے میرا یہ بشارتوں اور دعاؤں کا عملی روپ ہے اور اس کے وجود اور بقا کی خاطر ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔جنرل ضیا الحق سے پی پی پی کی نفرت ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی فوج کے خلاف پی پی پی نے کبھی بغاوت نہیں کی تو اس کی وجہ زندانیں،جیلیں اور کوڑوں کی بے رحمانہ سزائیں نہیں ہیں بلکہ اپنی دھرتی اور مٹی سے محبت کا انمٹ جذبہ ہے۔موت سے ڈرنے والے کوئی اور ہوں گے لوگ کیونکہ جیالے توکئی بار موت سے آنکھیں چار کر چکے ہیں اور وہ جو موت کو کئی بار اپنے سامنے دیکھتے ہوں وہ موت سے ڈرا نہیں کرتے۔اگر کسی کو میری بات میں شک ہو تو وہ شاہی قلعے کے درو دیوار سے پوچھ لیں انھیں میری بات کی صداقت کا یقین آ جائیگا۔بہادر ظلم کے سامنے ڈٹ جانے والوں کو ہی کہا جاتا ہے اور پی پی پی کے جیالوں نے بہادری کی جو شمعیں روشن کی ہیں وہ کبھی بجھائی نہ جا سکیں گی۔ بقولِ شاعر۔،۔
موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو ۔،۔ موت کیا زندگی نہیں ہوتی؟
پاکستان میں فوجی جرنیلوں نے ہمیشہ اقتدار پر قبضہ کیا لیکن پھر بھی پاک فوج سے عوام کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔فوج سے محبت کا مطلب فوج کے جرنیلوں سے محبت نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب اس ادارے سے محبت ہے جسے فوج کہا جاتاہے۔اگر ہم خاکی وردی میں ملبوس ایک فوجی جوان کو دیکھیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسا وہ اپنا ماں جایاجا رہا ہے۔اس کی وردی خوبخود ایک رشتہ اور تعلق قائم کر لیتی ہے۔ یہ تعلق ایسے تو نہیں بنا۔استادِ محترم اصغر سودائی نے اس کو اپنے منفرد انداز میں شعر کے قالب میں ڈحالا تھا۔(کتنے پیکر کٹے تب یہ پیکر بنا۔۔کتنے ماتھے جلے تب یہ جھومر بنا) اور اس جھومر کی حفاظت کی ذمہ داری جن کندھوں پر رکھی گئی ہے اسے فوج کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے سے چھ گنا بڑی فوج کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا جی داروں کا کام ہوا کرتا ہے اور ہماری فوج کے جوان جراتوں کے پالے ہوئے ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید جب لاہور کے محاذ پر بھارتی فوج کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو گے تھے تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کوئی خاکی وجود کے حامل انسان نہیں بلکہ آسمان سے اتری ہوئی کوئی خاص مخلوق ہیں جسے ہماری بقا کے لئے زمین پر اتارا گیا تھا۔ہمارے فوجی جوان بھارت کو خا ک چٹوا نے کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے بھارت کوئی معمولی سا ملک ہو اور وہ پاکستان کے فوجی جوانوں کی جراتوں سے خوفزدہ ہو۔ جمیل ا لدین عالی کا یہ نغمہ پاک فوج کو جس طرح خراجِ تحسین پیش کرتا ہے وہ انمٹ ہے۔(اے وطن کے سجیلے جوانو۔ میرے نغمے تمھارے لئے ہیں۔۔اڑ کے پہنچو گے تم جس افق پر ساتھ جائے گی آواز میری۔اے شجاعت کے زندہ نشانو۔ میرے نغمے تمھارے لئے ہیں) یہ سچ ہے کہ پاک فوج ماضی میں اقتدار پر ناجائز قبضہ کرتی رہی ہے جو کہ اس کے آئینی کردار سے ماورا تھا۔عدلیہ نے بھی فوج کو بیساکھیاں مہیا کیں اورآئین کے تقدس کا پاس نہ کیا حالانکہ ایسا کرنا آئین سے کھلی بغاوت تھی۔سیاست دانوں کا کام سیاست کرنا ہے جبکہ فوج کا اس کوچہ میں پاؤں رکھنا آئینی طور پر ممنوع ہے کیونکہ یہ اس کا علاقہ (ڈومائن) نہیں ہے لیکن اس کے باوجود فوج نے ایسا کیا لیکن قوم نے پھر بھی اسے اپنی پلکوں پر بٹھا یا۔کبھی جنرل ایوب خان نے اپنا سکہ جمایا، کبھی جنرل یحی خان نے اقتدار کے مزے لوٹے،کبھی جنرل ضیا الحق نے سفاکیت کی انتہا کر دی اور کبھی جنرل پرویز مشرف نے مغریبت اور معا شرتی آزادی کو فروغ دینے کی کوشش میں اقتدار پرشب خون مار لیکن قوم نے پھر بھی انھیں برداشت کیا تو اس کی وجہ ٹینک،توپیں اور بندوقوں کا خوف نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی فوجی جبر کی وجہ سے تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قوم دل سے اپنی فوج کا احترام کرتی ہے۔کیا احترام کا صلہ اقتدار پر شب خون مار کر دیاجایا کرتا ہے؟