شام میں تنازع ختم کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کی تجاویز
شام میں حزبِ اختلاف کے مرکزی سیاسی دھڑے نے ملک میں پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے تفصیلی سفارشات پیش کی ہیں۔ سعودی عرب اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ مذاکراتی کمیٹی ایچ این سی نے لندن میں اجلاس کے دوران انتقالِ اقتدار کے لیے تین مراحل پر مبنی منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق چھ ماہ پر مشتمل پہلے مرحلے میں صدر بشارالاسد مستعفی ہو جائیں گے۔ تاہم صدر اسد ایسی کوئی بھی تجویز ماننے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ منصوبے کے مطابق اس کے بعد صدر اسد ایک عبوری اتحادی حکومت کو اقتدار سونپ دیں گے جو 18 ماہ کے بعد انتخابات کی راہ ہموار کرے گی۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ صدر اسد کے حامیوں کے لیے امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔ سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں امید نہیں ہے کہ روس اور ایران صدر اسد پر دباؤ ڈالیں گے کہ ’وہ بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اتریں‘۔ ماضی میں صدر اسد اقتدار سے الگ ہونے سے انکاری رہے ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران اب ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میدانِ جنگ میں حکومتی فوج کی حالیہ کامیابیوں کے بعد صدر اسد کا موقف مزید سخت ہو گیا ہے۔ ایچ این سی کے رابطہ کار ریاض حجاب نے لندن میں ’وژن وار سیریا‘ نامی منصوبہ پیش کیا۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں حزبِ اختلاف اور حکومتی نمائندوں کے درمیان جنیوا اعلامیے کے تحت چھ ماہ تک مذاکرات ہوں گے۔ طرفین عارضی جنگ بندی کا اعلان کریں گے، محاصرے اٹھا دیں گے اور قیدیوں کو رہا کر دیں گے۔ اس کے بعد ڈیڑھ برس کا عبوری دور شروع ہو گا جس کے آغاز پر صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ ان کے علاوہ ایسے دوسرے سینیئر حکام بھی عہدہ چھوڑ دیں گے جن پر ’سنگین جرائم‘ کے الزامات ہیں۔ اس مرحلے کے دوران ایک نیا آئین تشکیل دیا جائے گا، اور ایک جمہوری اور تکثیری نظام وضع کیا جائے گا۔ آئین میں تبدیلیوں پر اتفاق کیا جائے گا، قومی مکالمے سے برآمد ہونے والے نتائج پر عمل درآمد کیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔ ریاض حجاب کے مطابق ان کی کمیٹی روس اور امریکہ کے مابین ہونے والے کسی بھی ایسے معاہدے کو مسترد کر دے گی جو ان کے مجوزہ منصوبے سے مختلف ہو گا۔ ’اگر روسی اور امریکی کسی ایسی چیز پر متفق ہو گئے جو شامیوں کی خواہشات سے بہت مختلف ہو تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے یہ اسد کو چھ ماہ یا ایک ماہ یا دن تک رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ اور روسی اور امریکی یہ بات جانتے ہیں۔ وہ شامی عوام کا موقف جانتے ہیں‘۔ تاہم دوسری جانب شامی نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے صدر بشار الاسد نے اپنے عہدے سے دست بردار کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ ملک کے منتخب رہنما کو ہٹانے کا مطالبہ ’پاگل پن‘ اور ناقابلِ یقین ہے۔ انھوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ شام میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔