رنگ برنگ

قدیم ایران کا مفکر اور مذہبی پیشوا زرتشت

قدیم ایران کا مفکر اور مذہبی پیشوا۔ آذربائیجان کے مقام گنج میں پیدا ہوا ۔ جوانی گوشہ نشینی ، غور و فکر اور مطالعے میں گزاری ۔ سات بار بشارت ہوئی۔ تیس برس کی عمر میں اہورا مزدا (اُرموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرقی ایران کا رخ کیا اور خراسان میں کشمار کے مقام پر شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے اس کے پیرو ہو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مذہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارا اعظم نے زرتشتی مذہب کو تمام ملک میں حکماً رائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مذہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہوگیا۔ آج کل اس کے پیرو ، جنہیں پارسی کہا جاتا ہے ، ہندوستان ، پاکستان ، افریقہ ، یورپ میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں (یا دو خدا) کارفرما ہیں۔ ایک اہورا مزدا (یزداں) جو خالق اعلیٰ اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ جد اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہوگی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہورا مزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جاتا ہے کہ کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشے رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا ۔ عرب انھیں مجوسی کہتے تھے۔
بحوالہ ۔۔۔ وکی اردو
بہ نامِ خداوندِ جان و خرد​
آزادیِ رائے و اندیشہ:​
"پروردگار نے روزِ نخست جس وقت اپنی خرد سے لوگوں کو سوچنے کی قوت عطا کی، اور جس وقت اُس نے کالبدِ تن میں جان ڈالی، اور اس روز سے کہ اُس نے کردار کی خرد کے ہمراہ تخلیق کی، اُس نے چاہا کہ ہر کوئی تفکر کے مطابق اپنی رائے اور اپنے اختیار کے ساتھ عمل کرے۔” (یسنا ۳۱ بند ۱۱)​

"اے لوگو! دوسروں کی نیک باتوں کو سنو اور روشن فکر کے ساتھ اُن پر غور کرو، اور شخصاً (اُن باتوں سے) نیک و بد اور راست و دروغ کی تشخیص کرو، اور اس سے پہلے کہ روزِ آزمائش آ جائے لازم ہے کہ ہر شخص اپنی راہ خود چُنے کیونکہ شمار کے دن ہر کوئی اپنے ذاتی کردار کا جوابدہ ہو گا۔ پس، ہم سب اُس راہ کی پیروی کریں کہ جس کا سرانجام کامروائی اور خوش بختی ہو۔” (یسنا ۳۰ بند ۲)​

قران پاک اس نصیحت کو بہت سادہ اور آسان الفاظ میں غور و فکر کرنے والوں کے سامنے رکھتا ہے ۔۔۔۔ کہ
” یوم آخر ” یہ حقیقت کھلے گی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جس کے لیئے اس نے کوشش کی ”
اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔
کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

مومن و مسلم اب کہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ذکر باقی ہے کتب قدیم میں بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو بس میں اپنے فرقے پہ نازاں پکا سچا مسلمان ہوں اور باقی سب بلا تفریق کافر ۔۔۔۔۔۔۔ جنہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button