پاکستان

چائے والے‘‘ کی تصویر کھینچنا ہراساں کرنے کے زمرے میں نہیں آتا

عشرہ 1970 کے اوائل میں سیکسوئل ہیراسمنٹ (sexual harassment) یعنی جنسی ہراساں کرنے کی اصطلاح کا استعمال پہلی بار کیا گیا۔ امریکا کے مشہور ’’میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (ایم آئی ٹی) کی ایک خاتون میری رو نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کروائی جس میں اس لفظ کا استعمال کیا گیا۔ 1991 میں امریکی خاتون قانون دان کی جانب سے امریکی جج پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس واقعے کے بعد جنسی ہراساں کرنے کی اصطلاح بہت مشہور ہوئی اور خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کئی واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
آج 2017 میں ہراساں کرنے (harassment) کی اصطلاح سے ہر کوئی اچھی طرح سے واقف ہے۔ ہم آئے دن اس طرح کے واقعات نہ صرف میڈیا سے سنتے ہیں بلکہ شاید آس پاس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان واقعات میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی متاثرہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے میں مردوں کو ہراساں کرنے یا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات انتہائی کم رپورٹ ہوتے ہیں یا پھر سامنے ہی نہیں آتے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں ہراساں کرنے (harassment) پر، کہ آخر یہ عمل ہوتا کیا ہے؟ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، جب سے پاکستان کی نامور دستاویزی فلم ساز شرمین عبید چنائے کی جانب سے ان کی بہن کو سماجی رابطے کی سائٹ فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے والے ڈاکٹر پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس واقعے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریکویسٹ بھیجنے والے ڈاکٹر کو نوکری سے بھی فارغ کیا جاچکا ہے۔ یہاں اربوں کی چوری کرنے والے کو بااثر ہونے کے باعث سزا نہیں ملتی جب کہ غریب عدالتوں کے دھکے کھاتا ہے۔ ملک میں فیس بک استعمال کرنے والے ہزاروں عام لوگوں کو کئی نامعلوم افراد فرینڈ ریکویسٹ بھیجتے ہیں پھر تو ان کی بھی شکایت درج کرنی چاہیے؟ اور کیا فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان سب کو بھی نوکری سے نکال دینا چاہیے یا پھر سزا دینی چاہیے؟
عوام سے بہتر اس بات کا فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کیا واقعی کسی کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یقیناً مجھ سمیت ہر شخص اس ملک میں ہراساں ہوچکا ہے اور ہراساں کرنے والے ہر شخص کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ اگر واقعی میں ایسا ہوتا ہے تو پھر یقین کیجیے کہ شرمین عبید چنائے سمیت اس ملک کا ہر شخص جیل میں ہوگا یا پھر اس ڈاکٹر کی طرح نوکری سے فارغ کردیا جائے گا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی ایک بااثر شخص کے الزام عائد کرنے پر کسی کو بھی نوکری نکال دینا انصاف کا تقاضا نہیں، یقیناً کسی انجان شخص کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا غیر اخلاقی تو ہوسکتا ہے لیکن ہراساں کرنے کا فیصلہ عوام ہی بہتر کرسکتے ہیں۔
البتہ ایک بات جو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ’’ہراساں کرنے‘‘ (harassment) کی وضاحت کون کرے گا؟ اس کی وضاحت (Definition) کیا ہوتی ہے، یہ کون بتائے گا؟ ہم روز جب اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو باہر متعدد لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی کو ہم جانتے ہیں اور کسی کو نہیں۔ اسی طرح کئی مرد خواتین کو دیکھتے ہیں اور کئی خواتین مردوں کو دیکھتی ہیں۔ تو پھر کیا ان لوگوں پر بھی پابندی لگادینی چاہیے یا پھر ہم سب ایک دوسرے کے خلاف ہراساں کرنے کی شکایات درج کرانا شروع کردیں؟
ایک سال پہلے کی ہی بات ہے کہ ایک خاتون نے اسلام آباد میں چائے فروخت کرنے والے لڑکے ارشد خان کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے تبصرے کیے جن میں خواتین نے بھر پور انداز میں حصہ لیا۔ جو تبصرے خواتین کی جانب سے کیے گئے انہیں یہاں بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔ ہمیں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہے کہ ہراساں صرف عورت نہیں بلکہ مرد بھی ہوتا ہے اور کسی کی تصویر کو بھی بغیر اجازت سوشل میڈیا پر ڈالنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے سے بھی بڑا جرم ہے۔ اس سے بھی بڑا جرم اس تصویر پر خواتین کی جانب سے غیر اخلاقی تبصرے ہیں لیکن شاید اس وقت تو کسی کو اس میں کوئی ہراساں کرنے کا پہلو نظر نہیں آیا، یا شاید ہمارے ہاں ہراساں کرنے کی اصطلاح صرف خواتین کےلیے ہی استعمال کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو استحصال کا سامنا رہتا ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین کو اس سے کہیں زیادہ ہراساں کرنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ہراساں کرنا یقیناً انتہائی سنگین جرم ہے لیکن اس واقعہ کے بعد ’’ہراسانی‘‘ (harassment) لوگوں کےلیے ایک مذاق سے بڑھ کر شاید کچھ نہ رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو سوشل میڈیا دیکھ لیجیے جہاں لوگوں کی جانب سے harassment کا بھی مذاق بنادیا گیا ہے۔
حقوق نسواں کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن عورت کا مقام اور مرتبہ جو اس معاشرے میں ہے، اس کا موازنہ مغرب کی برابری کی سطح پر لانے والی اندھی تقلید سے ہر گز نہ کیا جائے کیونکہ اس برابری کی سطح کے نعرے نے عورت کو اُن حقوق سے بھی محروم کردیا جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھے۔ اس اندھی تقلید نے مغربی معاشرے میں اس قدر بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ وہاں یا تو پیدا ہونے والے بچوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ان کا باپ کون ہے یا پھر بچے بڑے ہوکر خود والدین کی شادیاں کرواتے ہیں۔
حقوق نسواں کےلیے کام ضرور کیا جائے لیکن معاشرے میں عورت کا تماشا نہ بنائیے۔ صنف نازک کو درپیش مسائل حل کیے جائیں نہ کہ اس کا تقدس پامال کرکے رکھ دیا جائے۔
شرمین عبید چنائے بے شک ایک بڑا نام ہے اور خواتین کے حقوق کےلیے ان کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خواتین پر حملوں کی روک تھام کےلیے جو قانون سازی عمل میں آئی، اس میں ان کے کردار اور کاوشوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دو مرتبہ آسکر ایوارڈ جیت کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی خاتون بھی شرمین عبید چنائے ہی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد جس طرح سے لوگوں کا رد عمل دیکھنے میں آیا ہے اس نے ان کی شخصیت کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد شرمین عبید نے خود کو اشرافیہ کی اس فہرست میں لاکھڑا کیا ہے جو اپنی طاقت کے بل پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ شاید انہیں اس واقعے کی بہتر انداز میں تشریح کرنی چاہیے تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button