نااہلیت سے متعلق مقدمہ میں جہانگیر خان ترین کے وکیل کے دلائل مکمل، مزید سماعت 7نومبر تک ملتوی۔ سپریم کورٹ
اسلام آباد 26اکتوبر2017
(بیورو چیف پاکستان بشیر باجوہ، نیوز وائس آف کینیڈآ)
سپریم کورٹ ، نااہلیت سے متعلق مقدمہ میں جہانگیر خان ترین کے وکیل کے دلائل مکمل، مزید سماعت 7نومبر تک ملتوی
لیز اراضی کی آمدن پر جہانگیر ترین کا موقف کمزور ہے ، انہوں نے ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیرخان ترین کی عوامی عہدہ کے لئے نااہلیت سے متعلق زیرسماعت مقدمہ میں جہانگیر خان ترین کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مزید سماعت 7نومبر تک ملتوی کردی ہے ، عدالت نے اٹارنی جنرل کو سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ کی شق 15اے اور بی کے حوالے سے دلائل پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ لیز اراضی کی آمدن پر جہانگیر ترین کا موقف کمزور ہے ، انہوں نے ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا، پانامہ کیس میں بھی ٹرسٹ کے بینیفیشل اونر کا معاملہ تھا،والد کے امیریا غریب ہونے سے فرق نہیں پڑتا، وہ آمدن جس پر ٹیکس دیا گیا ہو کو تحفہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں، بنکنگ ٹرانزیکشنز سے منی لانڈرنگ کا تاثر نہیں لیا جا سکتا۔
بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آف شورکمپنی کیلئے رقم کی منتقلی کوٹیکس گوشواروں میں ظاہرکیا گیا تھا اوریہ منتقلی ٹرسٹ کو نہیں بلکہ آف شور کمپنی کے اکائونٹ میں ہوئی ہے اگرعدالت چاہے گی توآف شور کمپنی کے اکائونٹ کی تفصیلات بھی منگوا کرپیش کی جاسکتی ہیں ، جسٹس فیصل عرب نے ان سے کہاکہ دستاویزات سے معلوم نہیں ہوتاکہ رقم کس اکائونٹ میں منتقل ہوئی عدالت کو شائنی ویو کو تمام رقم ملنے کی دستاویزات بھی دکھائی جائیں،،جسٹس عمر عطا بندیال نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ قرض کی ادائیگی کس نے اور کس طرح کی تھی، جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ 2011 ء میں جہانگیر ترین نے 25 لاکھ پاونڈ، 2012ء میں 5 لاکھ پاونڈ اور 2014 ء میں گیارہ لاکھ ڈالرز بیرون ملک منتقل کیے، میرے موکل کی جانب سے ٹیکس ادائیگیوں کا مکمل بینک ریکارڈ موجود ہے، ا ن کامزید کہناتھا کہ 2 ملین سے زائد قرضہ پلاٹ رہن رکھوا کر لیا گیا جبکہ جہانگیر ترین نے رقم شائینی ویو آف شور کمپنی کو منتقل کی جس کے بعد آف شور کمپنی بینک کو قرض ادا کرتی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ہمیں بتایا جائے کہ لندن میں واقع ہائیڈ ہائوس جہانگیر ترین کا اثاثہ ہے یا نہیں جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ وہ جائیداد جہانگیر ترین کے نام نہیں بلکہ انکے بچے اسکے بینیفیشل اونرہیں،جسٹس فیصل عرب نے ان سے کہا کہ یہ ٹرسٹ بیرون ملک واقع ہے اگریہ ختم ہوتاہے ، توجہانگیر ترین کواس کاکیا فائدہ ہو گا سکندربشیر نے کہا کہ کسی عدالتی حکم نامہ سے ٹرسٹ ختم ہو سکتا ہے ورنہ قانونی طریقے کے علا وہ ٹرسٹ ختم نہیں ہو سکتا اور تقسیم پر جو حصہ ان کے مو کل جہا نگیر ترین کو ملے گا وہ ان کا اثاثہ ہوگا،چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے جو ٹرسٹ بنایا اس کی دستاویز عدالت کو فراہم نہیں کی گئی جس پر فا ضل وکیل نے عدالت کو دستا ویزات فرا ہم کر نے کایقین دلایا ، سماعت کے دوران درخواست گزارکے وکیل نے عدالت سے کہا کہ جہانگیر ترین اوربچوں کے مابین کروڑوں کی رقم کا بطور تحائف تبادلہ ہوا ہے اس کا بھی جائزہ لیا جا ئے جس پر سکندر بشیر نے موقف اختیار کیا کہ تحائف میں دی رقم کو گوشواروں میں ظاہر کیاگیا ہے ،جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ امیر ترین آدمی کو اسکے بچوں نے تحائف دیئے چیف جسٹس نے کہا کہ والد کے امیر غریب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،ایسی آمدن جس پر ٹیکس دیا ہو اس کو تحفہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں، بنکنگ ٹرانزیکشنز سے منی لانڈرنگ کا تاثر نہیں لیا جا سکتا ،جب تک بے نامی دار اعتراف نہ کریں وہ مالک ہی رہتا ہے ،لندن جائیدادکا کسی کے بے نامی ہونے سے فرق نہیں پڑتا،عدالت نے ایمانداری کو دیکھنا ہے،کہ کیاجہانگیرترین کی طرف سے رقم کی منتقلی اور جائیداد کی خریداری میں بے ایمانی ہوئی ،جہانگیر ترین نے زرعی آمدن میں اربوں روپے ظاہر کیے ہیں ، لیکن لیز پرلی گئی 18ہزار ایکڑکا فراہم کردہ ریکارڈ ٹھوس نہیں۔
انہوں نے کہاکہ عدالت کوکنڈکٹ سے حاصل فائدے کو دیکھنا ہو گا،بظاہر ہمیں جہانگیر ترین کی کمپنی سے متعلق جواب میں بددیانتی نظر نہیں آ رہی، بنکنگ ٹرانزیکشنز سے منی لانڈرنگ کا تاثر نہیں لیا جا سکتا ، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ جہانگیر ترین نے 2011 ء سے 2014ء تک 36 لاکھ پاونڈز کی رقم باہر بھیجوائی ، انہوں نے گھر کی تعمیر کے لیے بنک سے قرض لیا تھا،جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دستاویز سے پتہ نہیں چلتا یہ رقم لندن میں کس بنک اکاونٹ میں منتقل ہوئی، کیا لندن کا گھر جہانگیر ترین کا اثاثہ نہیں، چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیاکہ کیاتحائف کے تبادلوں کو184/3 کے مقدمہ میں بے ایمانی قراردیا جاسکتاہے تو سکندربشیر نے جواب دیا کہ 184/3میں عدالت قانونی اقدامات پرکسی کو بے ایمان نہیں کہہ سکتی ،جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ جہانگیر ترین کو انکے اپنے خاندان نے 109 ملین کے تحائف دیئے تو جہانگیر ترین نے اسی سال 525 ملین کی رقم بچوں کو کیوں دی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لیز اراضی سے حاصل ہونے والی زرعی آمدن پر جہانگیر ترین کا موقف کمزور ہے اور انہوں نے اپنے ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا، پانامہ کیس میں بھی ٹرسٹ کے بینیفیشل اونر کا معاملہ تھا، سماعت کے دورا ن حنیف عباسی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات میں مماثلت موجودہے ، سکندربشیر نے کہاکہ پانامہ فیصلہ میں قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ کہا گیا ہے، جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پانامہ کیس میں بھی بنیفشل مالک کا ایشو تھا تو وکیل نے موقف اپنایاکہ حسین نواز کا ٹرسٹ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ سے مختلف تھاکیونکہ حسین نواز کمپنیوں کے بنیفشل مالک تھے لیکن جہانگیر ترین کے ٹرسٹ میں وہ بنیفشل مالک نہیںانہوںنے بچوں کے مفاد کے لیے ٹرسٹ بنایا اوراس ٹرسٹ کے بنانے میں کوئی بدنیتی نہیں ، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسارکیا کہ آپ کے پاس بچوں کے زیرکفالت نہ ہونے کاکیاثبوت ہے جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ بچوں کے ٹیکس گوشوارے عدالت میں جمع کرواچکاہوں ، بچے سارے خود مختاراورشادی شدہ ہیں اپناکاروبار کررہے ہیں ان کے بڑے بیٹے کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ ہوگی اس لئے وہ زیرکفالت نہیں،اس موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ اکرم شیخ نے موقف اپنایا تھاکہ عمران خان نے ایک لاکھ پائونڈ این ایس ایل اور فلیٹ کے ایڈاونس کوظاہر نہیں کیا اوراکرم شیخ کے مطابق پانامہ کیس اورعمران خان کے کیس میں مطابقت ہے ان کا یہ بھی کہناہے کہ عمران خان نے اثاثوں کوظاہرنہیں کیا ، ان مقدمات کوسامنے رکھتے ہوئے بتایا جائے کہ جہانگیر ترین کے مقدمے میں کونسی چیز عدم مطابقت رکھتی ہے۔
جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ نواز شریف اپنی پوزیشن واضح کرنے میں ناکام رہے تھے ، جبکہ جہانگیر ترین نے عدالت کو تمام ریکارڈ فراہم کردیاہے ، اس کیس کو پانامہ سے جوڑنا درست نہیں ، عدالت نے پانامہ کیس میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہ آنے اور دستاویزات فراہم کرنے پر جے آئی ٹی تشکیل دی تھی ، لیکن اس کیس میں ناصرف عدالتی سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں بلکہ تمام متعلقہ دستاویزات بھی فراہم کر دی گئی ہیں چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے کہا کہ و ہ ا بھی تک عدالت میں اٹھارہ ہزار زرعی اراضی کی دستاویزات کو ثابت کرنے اور زرعی زمین کا لینڈ ریونیو ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے کہاکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ عدالت کی معاونت کی ہے ،میں نے کسی ادارے پرتنقید کی اورنہ کسی ادارے کوناکام قراردیا ۔
سکندر بشیر نے پا نی منگوایا تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ سکندر بشیر لائیٹ موڈ میں بھی رہاکریں، آپ پریشان کیوں رہتے ہیں، اس منصب پرآنے کے بعد مجھے خود میں کتنی تبدیلی لاناپڑی یہ مجھے پتہ ہے جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ کوشش کرتاہوں لیکن آپ کی عدالت میں ہرچیز کوآسان نہیں لیا جاسکتا۔ ،فاضل وکیل کے دلائل مکمل ہونے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔