حکومت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی اگر ہوئی تو مقابلہ کریں گے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں سینئر صحافی طلعت حیسن سے بات چیت کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ امریکی صدرکے بیان کا نیشنل سیکیورٹی کےاجلاس میں تفصیلی جائزہ لیا گیا جس پر واضح بیان دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں اور اس جنگ میں ہمارے ہزاروں افراد شہید ہوئے جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اس کے باوجود حقائق یہی بتاتے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر کئی ممالک کے سربراہان سے ملاقات کی ہے جس میں دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان دہشت کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور ایسے میں پاکستان پر ہی دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے کہنا تھا کہ جب تک بنیادی مسئلے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، بھارتی وزیر اعظم سے بات نہیں ہو سکتی لہذا بھارت کیساتھ پہلے کشمیر اور پھر باقی معاملات دیکھیں گے اور موجودہ ماحول میں بھارتی وزیر اعظم کیساتھ بات چیت کا قدم اٹھانا مشکل ہے، بھارت سے خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد سے خوف زدہ ہے اور اس طرف سے توجہ ہٹانے چاہتا ہے لیکن ہم کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، بھارت کو باور کرادیا ہے کہ ہرسازش کا مقابلہ کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کا دورہ ابھی طے نہیں پایا اور آرمی چیف جنرل باجوہ نےافغان صدرکو دورے کی دعوت حکومت کے کہنے پردی ہے جب کہ افغان صدر کے لیے پاکستان کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان سے زیادہ کوئی امن نہیں چاہتا اور ہم یہ چاہتے ہیں افغان عوام بیٹھ کر مسئلہ حل کریں کیوں کہ جنگ حل نہیں ہے۔
سی پیک پر امریکی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک سڑک کا نام نہیں ہے بلکہ چین کے ساتھ ایک اقتصادی معاملہ ہے جس میں کئی پروجیکٹ ہیں لیکن سی پیک سے متعلق یہ کہنا کہ متنازع علاقے سے گرز رہی ہے اسے عقل تسلیم نہیں کرتی۔
شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر کہ ملک میں دو جگہ سے پالیسی بنتی ہے جو کہ درست نہیں ہے کیوں کہ کوئی ملک دو پالیسیاں بنا کر کام نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما فیصلے کے محرکات سب کے سامنے ہیں اس پر پورا پاکستان بات کررہا ہے اور نوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی میں کوئی دراڑ نہیں آئی اور نہ ہی کوئی ایم این اے بھاگا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم این اے توڑ رہی ہے مگر ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہوا اور حکومت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی ،اگر ہوئی تو مقابلہ کریں گے۔
احتساب عدالت کے باہر پیش آنے والے واقعے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ میرا کام ہے کہ پتا چلاؤں کیا واقعہ تھا، کیسے ہوا اور کس کے احکامات پر ہوا لہٰذا بطور وزیر اعظم میرا کام ہے کہ نیب عدالت کے باہر رینجرز معاملے پرتفتیش کروں۔
سابق وزیر اعظم سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف میری پارٹی کے لیڈر ہیں اور انہی کی پالیسیوں کوآگے لے کرجارہے ہیں جب کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا، نوازشریف نے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیانہ ہی کوئی مشورہ دیا ہے۔