پاکستان ہمارا آشیانہ
کالم :- ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق
ہمارے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاکستان واپس آگئے ہیں اور اُن کی آمد کو اُن کے حریف شیخ رشید نے بھی مثبت انداز میں لیا ہے اور اُن کے حلیف تو بہت ہی خوش ہیںبلکہ انہوں نے میاں نواز شریف کے اس فیصلے کو دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا ہے ۔ دوسری طرف میاں صاحب کو کوچہ¿ یار سے سوئے دار کا سفر بھی مشکلات کی گھاٹیوں میں دھکیل رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب نے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی اگر دل و جاں سے ٹھان لی ہے تو وہ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔ بادلِ نخواستہ وہ اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں تو اس کے نتائج بھی انہیں بھگتنا ہوں گے۔ وہ جس شان و شوکت سے پاکستان آئے ہیں اس سے اُن کے مخلص کارکنوں کے چہروں پر رونق آگئی ہے اور وہ اب بیمار نہیں رہے ہیں صحت مند ہوگئے ہیں ۔ کرپشن اور پانامہ کیس سے اقامہ کیس کا سفر اب کسی خاص سمت کی جانب صاحب بصیرت لوگ دیکھ رہے ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ پر ہمارے اینکر پرسن جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں اپنے جذبات کی شدت پر قابو پانا چاہئے اور وہ جو محسوس کرتے ہیں اس کا اِظہار نہیں ہونا چاہئے۔ وہ جو دیکھ رہے ہیں وہ منظر پیش کرنا چاہئے مگر اینکر پرسن تو سیاستدانوں کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتے جارہے ہیں اور اُن کو صرف اپنی پسندہی مستند محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل صحافتی اقدار کے منافی ہے۔ صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہئے اور وہ جو دیکھتا ہے اس کو ظاہر کرنا چاہئے اس کی اپنی مرضی و منشا جب شامل ہوگی تو اعتبار اور اعتماد کے خوبصورت الفاظ اپنے مطالب و معانی کھو بیٹھےں گے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے وہ کارنامے جن سے عوام کو سہولت ملی ہے اُن کا بھی کھل کر اعتراف کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومت کے اداروں میںدیانت دار آفیسر موجود ہیں ۔ مجھے آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم کے بارے میں معلوم ہوا کہ PLDC کے زیر اہتمام وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا یہ کارنامہ بھی مثالی ہے اور اس ادارے میں کرنل عارف بٹ اور مریم خواجہ کے نام بے پنا ہ احترام سے لیے جاتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان ہمارا آشیانہ ہے اس کی حفاظت کے لئے ہمیں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ بیرونی قوتوں کی نگاہیں ہمارے آشیانے کی تباہی پر مرکوز ہیں اور یہ سازشیں آج سے نہیں ،جب سے اس آشیانے کے معمار قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بنیاد رکھی تھی اس وقت بجلیوں کے دلوں میں مسکرانے کی تمنا جاگ اٹھی تھی۔
ابھی بنا بھی نہ پڑی تھی آشیانے کی
بجلیوں کو تمنا ہے مسکرانے کی
اور آج بھی ہندو بنیا کے مذموم ارادے اور ظالم نگاہیں ہمارے آشیانے پر لگی ہوئی ہیں۔ گذشتہ روز پائنا اور سوچ کے اشتراک سے ملک کے نامور دانشور صحافی الطاف حسن قریشی نے ملک کے داخلی اور خارجی حالات کی روشنی میں ملک کے دانشوروں کو ایک ٹیبل کانفرنس پر مدعو کیا اور حالات کی سنگینی اور واقعات کی بدلتی ہوئی کیفیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مختلف قومی امو رپر سیر حاصل گفتگو کی گئی اور درون ملک اور بیرونی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خاص طور پر افغانستان ، ایران اور پاکستان کے اسلامی رشتوں کے حوالے سے بات ہوئی۔ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی معین ظفر، جاوید نواز، رﺅف طاہر ، نجم ولی، فاروق تسنیم، مجیب الرحمن شامی، فاروق چوہان اور سوچ کے سربراہ محمد مہدی نے اظہار خیال کیا۔ پائنا کی سوچ آفاقی اورسوچ کی سوچ مثبت فکر کی حامل ہے اور ا س پلیٹ فارم پر ہمیشہ سوچنے والے اور غور و فکر کرنے والے اصحاب فکر و عمل سر جوڑ کر ملک کی بہتری اور ملت کی فلاح کے لئے بیٹھ جاتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ افراتفری اور خود غرضی کے دور میں ایسے لوگوں کا وجود امید کی کرن ہے۔ جن کی دو رس نگاہی سے ہم بہت کچھ معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ پائنا او رسوچ کے لئے دعا گو ہوں