کالم,انٹرویو

قربانی قرینے سے بھی ممکن ہے

کالم :- وسعت اللہ خان
ویسے تو تلقین اور روایت یہ ہے کہ قربانی کا جانور کم ازکم اتنے دن پالا جائے کہ اس سے انسیت ہو جائے تا کہ بوقتِ قربانی یہ احساس ہو کہ کسی مونس کی جدائی سے دل پر کیا گزرتی ہے تا کہ ہم ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کر سکیں کہ جو سنتِ ابراہیمی کا اصل مقصد ہے۔ مگر اس روایت پر تب تک عمل ہوا جب تک آبادی بے قابو نہیں ہوئی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور جانور کو رکھنے اور ناز اٹھانے کے لیے مناسب جگہ اور وقت بھی میسر تھے۔ اب جانوروں کے ساتھ وقت گزارنے یا انھیں گھمانے پھرانے یا ان کے آرام و خوراک کا کام عموماً گھر کے بچوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور وہ بخوشی اسے انجام بھی دیتے ہیں۔
اگر کوئی پیغام کی اصل روح سمجھے تو قربانی کے جانور کا خیال رکھنے اور حسنِ سلوک کی ہدایت وہ معیار ہے جس کا اطلاق پورے سال تمام جانوروں پر ہونا چاہیے۔
مذہب ہو کہ سائنس دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جانور اور انسان میں اگر کوئی بنیادی فرق ہے تو یہ کہ انسان اپنا مافی الضمیرالفاظ میں بیان کرنے پر قادر ہے، جب کہ جانور اپنا مافی الضمیرجبلت کی زبان میں حرکات و سکنات کے وسیلے سے بیان کرتے ہیں۔ جس طرح انسان اذیت،ڈیپریشن، خوشی اور صدمے سے دوچار ہوتا ہے بعینہ جانور بھی ان ہی کیفیات سے گزرتا ہے۔ لہذا اس کی زبان اور جذبات سمجھنے کی ذمے داری خود کو اشرف المخلوقات کہنے والے پر ہے۔
حکم یہ ہے کہ قربانی کا جانور صحت مند ہونا چاہیے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ اس کے کھان پان کا پورا خیال رکھا جائے اور ایسی فضا میں رکھا جائے جہاں وہ آرام سے ہل جل سکے، بیٹھ سکے، کھڑا ہو سکے۔ جیسے انسانوں کو اجنبیوں سے مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے یہی حال جانور کا بھی ہے۔ انسانوں کی طرح جانور کو بھی صاف ستھرے ماحول میں رہنا پسند ہے۔ جانور کو بھی اردگرد گندگی، نمی، پیشاب اور خون کی سڑاند اور آلائشیں اتنی ہی ناپسند ہیں جتنی خود انسان کو۔
جیسے انسانوں کو بلاجواز شور ناپسند ہے اسی طرح جانور بھی شور سے بدکتے ہیں۔ ان کے قریب جا کر چیخنا، بھیڑ کا جمع ہو جانا، تیز روشنی، ہارن کی آواز، مرضی کے بغیر کھینچا جانا، پیٹا جانا، یہ سب حرکتیں جانور کو بدکانے، غصہ دلانے اور ڈرانے کا سبب بنتی ہیں۔ جانور کو ان اذیتوں سے گزر کر نارمل ہونے میں کم ازکم تیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔
زخمی جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ جانور کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے دوران اس کے زخمی ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اوسطاً ایک جانور اپنے اصل مقام سے خریدار کے حوالے ہونے تک کم ازکم تین مرتبہ باربرداری کے مرحلوں سے گزرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ اپنے گھر سے اس مقام تک لایا جاتا ہے جہاں سے اسے دوسرے شہر منتقل کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں اسے سڑک یا ریل کے طویل سفر کے بعد مویشی منڈی تک پہنچایا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ مویشی منڈی سے گاہک کے گھر تک منتقل ہوتا ہے۔
تینوں مرحلوں کے دوران اگر جانور کو اتارنے چڑھانے کے انتظامات تسلی بخش نہ ہوں، دوران منتقلی سختی، جگہ کی کمی، اناڑی ڈرائیونگ، ایک ہی ٹرک میں بڑے اور چھوٹے سینگوں اور بغیر سینگوں والے جانوروں کا سفر۔ یہ سب وجوہات جانور کو لاحق جسمانی خطرات میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں۔ جانور کو مسلسل چھتیس گھنٹے تک ایک ہی پوزیشن میں سفر کی کیفیت میں رکھنا اس کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ طویل سفر کی صورت میں اسے ہر چوبیس گھنٹے بعد آف لوڈ کرنا اور گھومنے پھرنے باالفاظ دیگر کمر اور ٹانگیں سیدھی کرنے کا موقع دینا لازمی قرار دیا گیا ہے (مگر میں نے تو بکروں کو بھی مسافر بسوں کے سامان کے کمپارٹمنٹ میں ٹھونس کر یا چھت پر بندھے سفر کرتے دیکھا ہے)۔
جب قربانی کا جانور گھر لایا جاتا ہے تو قربانی سے کم ازکم چوبیس گھنٹے پہلے اسے آرام دہ ماحول دینا ضروری ہے۔ قربانی سے قبل اسے پیاسا یا بھوکا نہیں ہونا چاہیے۔ (خریدنے کے بعد بیمار پڑنے والے جانور کی قربانی ہوسکتی ہے کہ نہیں یہ میرے علم میں نہیں)۔
جانور کے پٹھوں میں توانائی قدرتی شوگر سے بننے والے گلائیکوجن کیمیکل سے آتی ہے۔ جب جانور قربان ہو جاتا ہے تو یہی گلائیکوجن لیکٹک ایسڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی جانور کے جسم میں جتنا لیکٹک ایسڈ برقرار رہے گا اتنا ہی اس کا گوشت تازہ ، گلابی اور لذیذ رہے گا۔ جب جانور کو زبردستی باندھ کر، دھینگا مشتی کر کے، زمین پر بیدردی سے پٹخ کر یا شور مچاتے مجمع کے درمیان حالتِ خوف میں ذبح کیا جائے گا تو اس کش مکش میں جسم کے اندر موجود گلائیکوجن صرف ہو جائے گا۔ اور آپ کے ہاتھ صرف غیر معیاری گوشت ہی آئے گا۔
جانور کے آرام و خوراک کا آپ جتنا بھی خیال رکھیں ایک اناڑی قصائی آپ کی پوری محنت اور جذبے پر پانی پھیر سکتا ہے۔ لہذا جانور کی طرح ایسے ماہر قصائی کا انتخاب بھی اتنا ہی اہم ہے جو ایک سرجن کی تیزی سے جانور کو تیز چھری سے یوں ذبح کر سکے کہ جانور کا دماغ سے اعصابی رابطہ جانور کے حجم کے اعتبار سے تین سے بیس سیکنڈ کے درمیان ختم ہو جائے تا کہ وہ حالتِ غشی میں نہ صرف احساسِ اذیت سے آزاد ہو سکے بلکہ اس کے جسم سے کم ازکم ساٹھ فیصد خون تیزی سے باہر نکل جائے۔ اناڑی قصائی یہ دونوں کام نہیں کر سکتا چنانچہ قربان کرنے اور ہونے والے کی اذیت اور لحمیاتی معیار کی ابتری بڑھ جاتی ہے۔ اگر جانور کا سر ذبح کرتے ہوئے مہارت اور مضبوطی سے نہ تھاما جائے تب بھی جانور کی روح حالتِ اذیت میں پرواز کرتی ہے۔

کئی مسلمان ممالک اور ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اذیت ناکی سے بچانے کے لیے برقی جھٹکے سے بے ہوش کرنے کی علما کی جانب سے مشروط اجازت دی گئی ہے۔ تاہم اکثریت برقی جھٹکے سے بے ہوش کرنے کے حق میں نہیں۔ سب سے احسن طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جانور کا مالک اپنے ہاتھ سے ذبح کرے لیکن اگر وہ خود اعتماد یا اعصابی طور پر مضبوط نہیں تو اسے یہ کام کسی ماہر پر چھوڑ دینا چاہیے۔

صدیوں سے یہ چلن ہے کہ قربانی کا جانور گھر میں ذبح کیا جاتا ہے۔ لیکن اب چونکہ آبادی بے تحاشا بڑھ گئی ہے اور مکانات کا حجم بھی چھوٹا ہو گیا ہے۔کروڑوں لوگ کثیر منزلہ عمارات میں بھی رہتے ہیں چنانچہ قربانی کے جانور گھر سے باہر باندھنا اور سڑک یا گلی میں کھلے عام ذبح کرنا ایک مجبوری بن گیا ہے۔ اس کا توڑ خلیجی ریاستوں اور ملایشیا وغیرہ نے یہ نکالا ہے کہ لائسنس یافتہ مذبحہ خانوں کے احاطوں میں جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے۔ یا گھر اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ اس کے اندر یہ عمل انجام دیا جا سکے۔ مقصد یہ ہے کہ گلی یا سڑک الائشوں سے پاک رہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں نہ تو بڑی تعداد میں مذبح خانے ہیں اور نہ ہی شہروں کی حد تک گھروں میں قربانی کرنے کی گنجائش لہذا گلی اور سڑک ہی مذبحہ خانہ بن جاتے ہیں۔ اور الائشیں باہر پڑی سڑتی رہتی ہیں حتی کہ انھیں کوئی سرکاری محکمہ یا این جی او ٹھکانے نہ لگا دے۔ اور پھر یہی الائشیں پڑی پڑی کانگو وائرس سمیت کئی امراض مکھیوں اور مچھروں اور جوتوں کے ذریعے گھروں تک پہنچ جاتی ہیں۔

لوگ، علما اور سرکار اگر چاہیں تو بعد از قربانی زحمت کا تدارک اسی طرح ممکن ہے جیسے عید کی نماز فروغِ اجتماعیت کے لیے جامع مسجد یا مخصوص میدانوں اور عیدگاہوں میں پڑھنے کا حکم ہے۔ قربانی بھی مخصوص کھلے میدانوں میں کیوں نہیں ہو سکتی۔ تاکہ گلی اور سڑک معمول کے مطابق رہ سکے اور الائشیں بھی تیزی سے ٹھکانے لگ سکیں۔ پر اس کے لیے نیئت اور قانون سازی اور عوام الناس میں فقہی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں کئی مسلمان ممالک کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔ بشرطیکہ اس کام کو اہم سمجھا جائے۔ عید مبارک۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button