کنگنا کو گھر میں شدید پابندیوں کا سامنا تھا
(نیوز وی او سی آن لائن)بھارتی فلم انڈسٹری کے حوالے سے عموما یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں وہ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اور ہندی و انگریزی لہجے کے حامل افراد ہی آگے آسکتے ہیں مگر بھارتی اداکارہ کنگنا رناوت نے اس تاثر کی نفی کردی ہے، 30سالہ کنگنا رناوت11سالوں سے بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں ، آج تک ان کی بارے میں کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کو گھر میں شدید پابندیوں کا سامنا تھا۔
بھارتی ٹی وی چینل ” این ڈی ٹی وی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کنگنا رناوت نے اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق ہماچل پردیش کے ایک چھوٹے سے گاﺅں ” منڈی “سے ہے، میں راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جہاں پر عورتوں کے حوالے سے سخت رائے قائم کی جاتی ہے، بیٹیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ بچوں کو سارا پیار دیا جاتا ہے، میرے گھر میں بھی باقی خاندان کی طرح کا طریقہ کار رائج تھا، عورتوں کو اپنے گھروالوں کے سامنے بھی گھونگھٹ نکال کر بیٹھنا پڑتا ہے جبکہ خواتین ہمیشہ کھانا مردوں کے بعد کھاتی ہیں۔ میرے والد مجھے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جبکہ میرے بھائی کو کمانڈو بننے کا شوق تھا ، ابو اس کے لئے کھلونا پستول اور دیگر چیزیں لے کر آتے تھے۔ جب میں چندی گڑھ کالج میں گئی تو وہاں میں نے منی سکرٹ پہننا شروع کردی جس پر سارے خاندان میں ہنگامہ بھرپا ہوگیا لوگ اور رشتہ دار میرے ابو کو فون کرکے میرے حوالے سے طرح طرح کی خبریں دیتے تھے۔کالج سے جب میں ایک بار گاﺅں گئی تو میری ماں نے غصے اور نفرت سے مجھے کہا کہ تم ایک بدتمیز لڑکی ہو۔
کنگنا رناوت کا مزید کہنا تھا کہ میں آزاد زندگی گزارنا چاہتی تھی میں والدین، بھائیوں، خاوند اور بیٹوں کے بکھیڑے سے آزاد ہو کر اڑنا چاہتی ہوں اس لئے میں نے اپنے خاندان اور روایات سے بغاوت کی مجھے اپنے خاندان پر کبھی بھی فخر نہیں ہوا۔مجھے ایسے لوگوں پر کبھی فخر نہیں ہوتا جو لوگ عورتوں کو دبا کر رکھتے ہیں ، میری بغاوت کے بعد میرے گاﺅں کے لوگوں نے مختلف انداز سے سوچنا شروع کردیا ہے، لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا سیکھ چکی ہیں جبکہ نوجوان چارپائیاں توڑنے کی بجائے کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ، گاﺅں کے لوگ میرے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں ان جیسی کیوں نہیں ہوں ، شکل و صورت میں ان جیسی ہونے کے باجود ان کے جیسا رویہ کیوں نہیں ہے؟ بڑے شہروں کے لوگ دولت کی ہوس میں اندھے ہوکر اسی کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ چھوٹے شہروں میں لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔اپنے لہجے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ آپ کا لہجہ انگریزوں والا ہو اسے ہی فلم انڈسٹری میں لایا جاتا ہے میں انگریزی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن میں اپنے ہماچل پردیش والے لہجے پر بے حد خوش ہوں اور اسی پر فخر محسوس کرتی ہوں۔