کیا پیسہ سب کچھ ہے؟ دنیا کی رنگینیوں کے اصل حقائق
کبالہ جادو جادو اور عملیات کے ذریعے اپنے اھداف اور کامیابی حاصل کے معاملہ میں بنی اسرائیل قوم ہمیشہ سرفہرست رہی ھے۔ تاریخ میں سب سے زیادہ جادوکے ذریعے کام لینے اور اس کی شیطانی طاقتوں پر یقین رکھنے والی یہی ایک قوم ہے۔ یہ قوم جب تک فلسطین میں رہی اس وقت تک یہ اس راہ سے ناواقف تھی۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حکمران بنے تو انہوں نے اپنی قوم کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ مصر مین رھتے ہوئے جہاں فرعونوں نے ان کو اپنی بلند و بالا عمارات اور اھراموں کی تعمیر میں ان سے بیگار کا کام لیا ، ان کو انتہائی ذلیل زندگی گذارنے پر مجبور کیا وھین ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے گئے۔ وھان رھنے کے دوران انہوں نے مصریوں سے دو بہت بڑی برائیاں بھی حاصل کر لیں۔ ایک تو ان میں، خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعونوں کو دیکھ دیکھ کر انتہائی رعونت تکبر اور غرور پیدا ہوگیا دوسرا ان کو مصر کے اس زمانے کے انتہائی ماھر جادوگروں سے کالا علم اور جادو سیکھنے کا موقع بھی میسر آگیا۔ تاریخ کے اس دور میں مصر اس فن میں پوری دنیا میں یکتا تھا۔ سامری جیسے جادوگر جن کا ذکر اور جادو کے کرتب قران پاک میں مذکور ہیں وہ بھی اس وقت مصر میں پائے جاتے تھے قران پاک کیونکہ رشدو ھدایت کی کتاب ھے قصوں کہانیوں کی نہیں، اس لئے اس میں تاریخ کے واقعات کا سرسری سا ذکر صرف عبرت کے لئے ملتا ہے۔ اس زمانے میں مصر سحر اور جادو کا مرکزتھا اور فن سحر شباب پر، مصریوں نے تمام دنیا کے مقابلہ میں اس کو اوج کمال تک پہنچادیا تھا۔ یہ جادوگر فرعونوں کے لئے ناقابل یقین قسم کے کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ یہ جادوگر کبالہ نامی جادو کے ماہر تھے ۔ یہ جادو کی سب سے خوفناک قسم ہے جس میں اس جادو کے مااہرین براہ راست شیطان سے رابطہ میں رھتے ھیں۔ شیطان ان کو کامیابی کے نئے سے نئے گر سکھاتا ہے ایسی ایسی چیزوں کے بارے بتاتا ہے جن کے بارے عام انسان نہیں جانتے اور وہ ان سے کام لیکر انتہائی محیرالعقول قسم کی چیزیں ایجاد کرتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس زمانے کے مصری بادشاھوں کو دیکھتے ھیں ان کی ایسی سائنسی ترقی دیکھتے ہیں جس کو بروئے کار لاتے ہوئے عظیم الشان عمارات تعمیر کی ، ایسے مسالے اور دوائیاں ایجاد کی جن کی مدد سے لاشون کو ھزارون سال گزرنے کے بعد بھی کوئی گزند نہین پہنچتا۔ مصریوں کے ساتھ رھتے رھتے بنی اسرائیل نے ان کے خاندانون میں شادیاں بھی کر لی۔ آج بھی امریکہ کی ” اھم شخصیات ” کا ڈی این اے فرعونوں سے ملتا ھے آپ نے بھی اخبارات میں ایک سابق مشہور امریکی صدر کے بارے پڑھا ھوگا جسے فرعونوں کی نسل کا کہا جاتا ہے۔ چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے کہ فرعونوں کا انکل سام کی اولادوں سے کوئی نا کوئی گہرا اور خونی رشتہ ضرور ہے کہ آج امریکہ کے ڈالر بل پر مصریوں کے ایک آنکھ والے قدیم مصری دیوتا کی آنکھ اہرام مصر کے اوپر سے جھانکتی نظر آتی ہے (جسے ھمارے بھولے بھالے دانشور دجال کی آنکھ قرار دیتے ھیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے وطن فلسطین کی جانب واپس آئے تو یہ قوم پہلے جیسی نہیں رھی تھی ان میں فرعونوں جیسی فرعونیت سرکشی اور شیطانی صفات بھی شامل ھوچکی تھیں۔ کبالہ جادو سے ان کی محبت کے تاریخی حوالے میں آگے چل کر دونگا۔ فلسطین مین واپس آنے کے بعد یہ لوگ جہاں دوسری بہت سی نافرمانیوں اور گناھوں مٰیں غرق ھوگئے وہیں ان میں سے بعض افراد جادو اور شیطانی عملیات میں بھی مصری جادوگروں کی طرح مشغول رھے۔ مخصوص اعداد، اشارے اور علامتیں قبالہ کی رسومات اور جادو میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ان لوگوں نے اس علم کومصریوں سے بھی زیادہ ترقی دے دی تھی۔ وہ اس علم سے دشمنوں اور مخالفوں کو نقصان پہنچایا کرتے ۔ جب حضرت داؤد و سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم بادشاھت عطا فرمائی تو ان لوگوں نے قوم کو ورغلانا شروع کر دیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس نعوذباللہ کبالہ جادو کی طاقت تھی جس کی وجہ سے ان کو جنات پر حکمرانی حاصل ھوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد کبالہ جادو کو روحانیت کا درجہ دے دیا گیا۔ جادو کی کتابوں کو ھیکل سلیمانی مین مقدس کتابوں کا مقام دے کر رکھا جانے لگا۔ پھر اس قوم پر عذاب الہیٰ نازل ھونا شروع ھوئے حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کیا گیا ھیکل پہلے بخت نصر کے ھاتھوں اور بعد میں ٹائٹس کے ھاتھوں مکمل طور پر تباہ ھوگیا اور یہ قوم اللہ کے حکم سے پورے کرہ ارض پر منتشر ھوگئی۔ کبالہ جادو کی وہ کتابیں ھیکل کے ملبے تلے ھی کہیں دب کر رہ گئیں۔ 1118ء میں یورپ کے نو جنگجوئوں نے یروشلم میں ایک عسکری تنظیم کی بنیاد رکھی جو تاریخ میں ’’نائٹ ٹیمپلر‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ جنگجو بظاہر یروشلم آنے والے عیسائی مسافروں کو دوران راہ تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا اصل مقصد ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات میں کھدائی کرنا تھا۔یہ جنگجو اسی قدیم علم، کبالہ کے طالب علم تھے۔ ان صلیبی جنگجوئوں کو یقین تھا کہ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات میں سے انہیں کبالہ کی کتب اور آثار مل جائیں گے۔1860ء میں برطانوی فوج کے دو انجینئروں نے حرم الشریف کے نیچے کھدائی کی۔ وہ ایک سروے کرنا چاہتے تھے۔ تبھی انہیں سرنگوں کا جال نظر آیا۔ یہ سرنگیں انہی نو نائٹ ٹیمپلروں نے کھودی تھیں۔ خیال ہے کہ انہیں ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات سے خاصے آثار و نوادر ملے تھے اور ایسی کتب بھی جن میں کالے جادو اور پُراسرار رسومات کے متعلق معلومات درج تھیں ۔قبالہ کی کتب پاکر نائٹ ٹیمپلر پُراسرار رسومات کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے۔ وہ کالا جادو سیکھ کر غیر معمولی طاقتیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یوں پھر وہ دنیا کے حاکم بن سکتے تھے۔ نائٹ ٹیمپلر کالا جادو سیکھ کر فوق البشر تو نہ بن سکے، مگر ان کے جانشینوں میں آج تک یہ تصّور ضرور پنپ رہا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرنے کا دیرینہ خواب پورا کیا جائے۔ان نائٹ ٹیمپلروں نے یورپ جاکر دوسرے لوگوں کو بھی طاقت اور دولت پانے کے سہانے سپنے دکھائے۔ لہٰذا بہت سے لوگ اس عسکری تنظیم میں شامل ہونے لگے جس کی بظاہر ذمے داری یروشلم آنے والے زائرین کا تحفظ کرنا تھا۔ حقیقتاً یہ تنظیم دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہوکر کرہ ارض کی حکمران بننا چاہتی تھی۔انسان فطری طور پر دولت اور طاقت چاہتا ہے۔ اسی لیے تنظیم سرعت سے پھیلی اور چند برس میں ارکان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی۔ 1128ء میں پوپ نے اسے مذہبی عسکری تنظیم کے طور پر تسلیم کرلیا۔ یہ منظوری پاکر نائٹ ٹیمپلر کی شہرت و عزت میں اضافہ ہوگیا۔1139ء میں یوپ انوسینٹ دوم نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ نائٹ ٹیمپلروں پہ کسی ملک کے مقامی قانون لاگو نہیں ہوتے۔ گویا ٹیمپلروں کو یورپ کے ہر ملک میں آزادانہ گھومنے پھرنے کا پروانہ مل گیا۔ وہ صرف پوپ کے سامنے جواب دہ تھے۔ اس حکم نامے نے بھی عسکری تنظیم کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔نائٹ ٹیمپلروں نے صلیبی جنگجوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مال غنیمت میں بھی سب سے بڑا حصّہ انہی کو ملتا۔ چناں چہ محض نصف صدی میں نائٹ ٹیمپلر یورپ کی سب سے بڑی عسکری اور مالیاتی تنظیم بن گئی۔ یہی دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کمپنی بھی تھی جس کے وسائل بے پناہ تھے اور جو تجربے کارا ور تربیت یافتہ ملازموں کی فوج رکھتی تھی۔تیرہویں صدی تک نائٹ ٹیمپلر تنظیم سے پونے دو لاکھ یورپی وابستہ ہوچکے تھے۔ ان میں سے 25 ہزار نائٹ یا گھڑ سوار جنگجو تھے۔ یہ تنظیم یورپ بھر میں وسیع و عریض جائیدادوں، قلعوں، گرجاگھروں اور فارموں کی مالک تھی۔ حتیٰ کہ جب دو یورپی ممالک جھگڑ بیٹھتے تو یہی تنظیم ان کے مابین تصفیہ کراتی۔کبالہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے تنظیم کا ڈھانچہ اسرار و رموز پر مبنی تھا۔ بیرونی لوگوں کو قطعی علم نہ تھا کہ تنظیم میں کام کیسے ہوتا ہے۔ اسی کا سردار ’’گرینڈ ماسٹر‘‘ کہلاتا۔ جبکہ نائبین کو ’’ماسٹر‘‘ کہا جاتا۔ ان ماسٹروں کا حکم ’’خدا کا لفظ‘‘ تھا جسے نائٹ ٹیمپلر ہر صورت انجام دیتے۔ تنظیم میں نہایت چھان پھٹک کر نئے ارکان شامل کیے جاتے۔اس زمانے میں بیرون ممالک کا سفر کئی خطرات رکھتا تھا۔ اکثر راہ میں ڈاکو مال لوٹ لیتے۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی نقدی نائٹ ٹیمپلروں کو دینے لگے۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچتے تو نقدی انہیں واپس مل جاتی۔ بدلے میں تنظیم تھوڑی سی فیس وصول کرتی۔ یوں نائٹ ٹیمپلر بینکار بن بیٹھے اور سود بھی لینے لگے۔رفتہ رفتہ نائٹ ٹیمپلر اتنے طاقتور ہو گئے کہ فرانس کا شاہ ،فلپی پنجم انہیں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ چنانچہ اس نے پوپ کلیمنٹ پنجم پر دباؤ ڈال کر 1307ء میں تنظیم پر پابندی لگوا دی۔تبھی نائٹ ٹیمپلروں نے قسم کھائی کہ وہ رومن کیتھولک کلیسا کو تباہ کر کے چھوڑیں گے۔ چناںچہ انہوں نے بعدازاں مارٹن لوتھر کا ساتھ دیا جو رومن کیتھولک کلیسا کا مخالف تھا اور جس نے ایک نئے عیسائی فرقے‘ پروٹسٹینٹ ازم کی بنیاد رکھی۔کئی نائٹ ٹیمپلر یورپ بھر میں پھیلی معماروں کی تنظیموں (mason guilds) میں شامل ہو گئے۔ انہوںنے تنظیموں میں قبالہ کی مخصوص رسومات و علامات متعارف کرائیں۔ سترہویں صدی میں نائٹ ٹیمپلروں نے ہم خیال معماروں کی مدد سے فری میسنری کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا مقصد یورپ میں ’’آزاد خیالی‘‘ کو پروان چڑھانا تھا …ایسے مادر پدر آزاد نظریات و خیالات جو انسان کو مذہب سے برگشتہ کر دیں اور اس میں مادہ پرستانہ جذبات کو فروغ دیں۔ 1776ء میں سابق فری میسنوں نے ایک نئی تنظیم‘ الومناتی کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے عزائم، سرگرمیاں اور نظریات بھی فری میسنری سے مماثلت رکھتے ہیں۔ان تنظیموں کو یہودی بنیوں خصوصا جرمن روتھ شیلڈ خاندان سے سرمایہ ملا۔ یہ یہودی پوشیدہ طور پر عیسائی مذہب کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ پھر یورپ میں جنگوں کی کثرت ان کے سودی کاروبار کو بڑھاوا دیتی تھیں۔ لہٰذا فری میسنری اور الومناتی کو سرمایہ فراہم کر کے یہودی بستیوں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے۔مغرب میں مذہب کے خلاف نفرت پروان چڑھائی اور جنگوں کے ذریعے ارب پتی بن بیٹھے۔یہ فری میسن اور الومناتی ہی ہیں جنہوںنے فرانسیسی انقلاب برپا کیا۔ نیز امریکا کو علیحدہ مملکت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے یورپ میں مادہ پرستی کو فروغ ملا اور سرمایہ داری پنپنے لگی۔ مادہ پرستی نے پھر دنیا بھر میں ایسا رواج پایا کہ مذہب اور اخلاقیات ،دونوں کو بہت ضعف پہنچا۔ اسی لیے آج بہت سے انسانوں کا مقصدِ زندگی ہر حال میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانا بن چکا ہے۔ ھوسکتا ھے جن رازوں سے اللہ پاک کی مدد سے میں پردہ اٹھا رھا ھوں ، ان رازوں سے پردہ اٹھنا میرے اپنے ھی اردگرد کے ان لوگون کے لئے تکلیف دہ ھو جو خود بھی ان رازوں کا حصہ ھیں۔ آپ میرے ساتھ رھتے ھوئے اس دنیا کو اس کے اصل رنگ میں دیکھنے لگ جائین گے۔ آپ کو لگے گا کہ جس دنیا کو ھم اس کی اوپری خوبصورتی سے متاثر ھو کر دیکھتے رھنے کے عادی ھیں یہ اندر سے کس قدر گھناؤنی اور بدصورت ھے۔ اس میں نظر آنے والے یہ حسین اور چمکتے دمکتے چہرے اور جسم حقیقت کے آئینے میں کس قدر کریہہ دھشتناک نظر آتے ھیں۔ آپ کو صاف صاف دکھائی دینے لگے گا کہ اس دنیا میں شیطان کس قدر کامیاب ھو چکا ھے اور اس کے پجاری کس قدر طاقتور اورمضبوط ھوچکے ہیں جن کے سامنے مٹھی بھر اھل ایمان کتنے کمزور اور مجبور ھوچکے ھیں۔ یہ شیطانی کلٹ ، یہ کبالہ جادو کی رسومات کے پجاری اس دنیا میں بہت بڑی تعداد مین موجود ھیں اور ان کی بڑی تعداد اس جادو کی وجہ سے شہرت ، دولت اور کامیابی حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ھے۔ ھالی ووڈ ، خوابوں کی دنیا کی تمام سیلیبرٹیز اس جادوگر گروہ میں شامل ھیں ۔ یہاں ایک بات واضح ھونی ضروری ھے ھالی ووڈ کے تمام اداکار اور اداکارائیں یقینا” اس جادو کا سہارا اپنی کامیابیوں کے لئے ضرور لیتے ہیں یہ لوگ خود جادوگر نہیں ھوتے بلکہ یہ لوگ کبالہ کی شاطانی رسومات اور عبادات میں باقاعدگیی سے شریک ھوتے ھیں یہ رسومات اور عبادات کس قسم کی ھوتی ھیں؟ ان کے بارے مختصر صرف اتنا جان لیجئیے کہ دنیا کی کوئی ایسی اخلاق سوز حرکت نہ ھوگی جو ان رسومات میں نہ کی جاتی ھو۔ ھر وہ فعل کیا جاتا ھے جس مین شیطان کی خوشی شامل ھوتی ھے۔ کبالہ کے جادوگر جو فری میسنری الیومیناتی کے اھم عہدیداران ھوتے ھیں وہ شیطان کو خوش کرنے کے لئے ان رسومات کی ادائیگی کا اھتمام کرتے ھین بدلے میں وہ فلمی اور سیاسی شخصیات کو اپنے جادو کے ذریعے اور شیطبانی قوتوں کی مدد سے کامیاب بناتے ھیں یہ لوگ سٹیج پر یا فلم میں جب فن کے مظاھرے کے لئے آتے ھیں یہ شیطانی طاقتیں دیکھنے والون پر ان کا سحر طاری کر دیتی ھیں۔ لوگ پاگل ھو کر ان پر جان نثار کرنے کو تیار ھوجاتے ھٰیں۔ میں مشہور شخصیات کے نام یہاں لکھ رھا ھون جو کبالہ کے مستقل ممبران ھیں ۔ آج تک کسی ٹی وی یا اخبار نے آپکو وہ نہیں بتایا ھوگا جو میں ان کی پہچان کے لئے آپ کو بتانے جا رھا ھوں ۔ پہلے ان مشہور شخصیات میں سے چند کے نام جان لیجئے جو اس وقت ھالی ووڈ کے آسمان پر چمک رھی ھیں اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن ھیں۔ PARIS HILTON VICTORIA BECKHAM NAOMI CAMPBELL MICK JAGGER DEMI MOORE RIHANNA LUCY LIU GWYNETH PALTROW TORI SPELLING MICHELLE WILLIAMS RUMER WILLIS CHARLIZE THERON ZAC EFRON SIENNA MILLER JAKE GYLLENHAAL ASHTON KUTCHER BRITNEY SPEARS LINDSAY LOHAN MADONNA اوپر نظر آنے والے فوٹو میں ان میں کچھ شخصیات کی تصویریں ہیں۔ ان سب میں ایک مشترک چیز نظر آ رھی ھے وہ ھے ۔۔۔۔۔۔ سرخ رنگ کی یک ڈوری ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ان سب شخصیات کی کلائیوں میں بندھی ھوئی ھے۔ جی ھاں یہ پہچان ھے کبالہ کلٹ کے ممبران کی ۔ ان کی جو کبالہ کی رسومات اور عملیات میں شریک ھوتی ھیں۔ اب تھوڑا سا تاریخ کے ان یہودی جادوگروں کا ذکر جو کبالہ میں انتہائی مہارت حاصل کر چکے تھے؟جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ھوں یہودیوں کے ہاں روحانیت سے متعلق علوم کو ’’کبالہ‘‘ (Kabbalah) کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ روحانیت وہ نہیں جس کا تصور اسلام میں ہے۔ یہودیوں کی روحانیت کا بڑا حصہ شیطانیات، سفلیات اور جادو سے متعلق ہے۔ کبالہ وہ علم ہے جس میں انسانی ذہن کو قبضے میں کرنے کے تمام طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ جادو کے ذریعے، کیمیا کے ذریعے، برقیاتی لہروں (Electronic Waves) کے ذریعے، ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے۔کبالہ کی حقیقت یہودی مذہبی پیشواؤں ہی کو معلوم ہے۔ دیگر قوموں سے اس کو چھپانے کے لیے انہوں نے اس علم کے کئی اور ہم نام، دُنیا میں متعارف کرائے ہیں مثلاً ’’قَبَلہ‘‘، ’’قبالہ‘‘ وغیرہ۔ ان میں سے کون سا حقیقت ہے، اس کا جاننا خاصا مشکل کام ہے۔یہودیوں میں ایک سے بڑا ایک جادوگر رہا ہے۔ انہوں نے اس شیطانی عمل کے ذریعے مسلمانوں کے اندر مختلف فتنے پھیلائے ہیں اور طرح طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان یلغاروں سے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی حفاظت کا بندوبست کریں تاکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دُشمن نامراد ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم لوگ دُنیا میں رُونما ہونے والے حادثات وواقعات کو صرف اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے اسلام دُشمن قوتیں ہمیں دِکھانا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے ان حادثات سے عبرت پکڑنے کے بجائے ہم اُلٹے فکری گمراہی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذیل میں جن افراد کا تذکرہ کیا جا رہا ہے یہ سب وہ ہیں جو ظاہراً کچھ اور تھے جبکہ حقیقت میں کچھ اور۔ ہمیں چاہیے کہ دین کے دُشمنوں سے ہوشیار رہیں خواہ وہ کہیں بھی چھپے ہوں۔ ان پُراسرار شخصیات میں چند نام یہ ہیں: -1ابوعیسیٰ اصفہانی یہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تھا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ خلافتِ بنواُمیہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی خون ریزی اسی کے باطنی تصرفات کا نتیجہ تھی۔ -2 ابراہیم ابوالعافیہ یہ اُندلس کے ایک متمول گھرانے کا فرد تھا۔ اس کی پیدائش 1240ء میں ہوئی۔ 1278ء میں بیت المقدس سے واپس آکر اس نے اپنے مسیح ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اس قدر باطنی قوتوں کا مالک تھا کہ اس نے اپنے جادو کے زور سے، عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا، پوپ نکولس سوم کو تصرف قلبی سے یہودی بنانے کی کوشش کی۔ پوپ نکولس کو جب اس کی سازش کا علم ہوا تو اس نے اس پر، اپنے فتوے کے ذریعے لعنت کی اور اسے موت کی سزا کا حکم سُنایا۔ قبل اس کے کہ ابراہیم ابوالعافیہ کو پھانسی ہوتی، پوپ نکولس خود تیسرے دن مر گیا۔