سابق۔وزیراعظم نا اہل کیوں ہوئے
کالم :- منور علی شاہد
3اپریل2016 کو جب پہلی بارپاناما کی لاء فرم موزیک فونیسیکا کی طرف سے پاناما پیپرز کی پہلی قسط جاری کی گئی تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک سال اور تین ماہ بعد یہ پیپرز پاکستان کی سیاست کا نقشہ ہی بدل ڈالیں گے اور تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بننے کا منفرد اعزاز رکھنے والے وزیراعظم ذلت و رسوائیوں کو سمیٹتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے متفقہ طور پر تاحیات نااہل قرار ہو جائیں گے اور پوری دنیا نے دیکھا اور سنا کہ پاناما پیپرز کیس کا پاکستان کے اندرانجام وہ ہوا ہے جس کا کسی کو تصور بھی نہ تھا پاکستان میں اپنی طرز کا یہ ایک انتہائی منفرد، فلمی طرز کا سنسنی خیزخبروں سے بھرپور کیس تھا جس کی کاروائی کے دوران انتہائی ڈرامائی موڑ بھی آئے اورمالی بدعنوانی کے ناقابل یقین طریقے اور قصے سننے کو ملے ۔وزیر اعظم کا منصب کسی بھی ملک کے وقار کی علامت ہوتا ہے اس کیس نے پاکستان کے پہلے سے مجروح وقار کو مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ملکی سیاسی منظر پر چھائے جانے والے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سابق وزیراعظم نے سب سے بار باریہ پوچھا کہ میرا قصور کیاہے ان کو کون بتائے کہ جناب آپ کے قصور کی داستاں اس قدر طویل ، سیاہ اور شرمناک ہے کہ شاید مورخ بھی لکھتے ہوئے شرمائے۔ بیس اپریل کے فیصلے میں وزیراعظم بال بال بچے تھے لیکن اٹھائیس جولائی کے فیصلے کے بعد ان کے پاس کچھ باقی نہ رہا نہ وزارت عظمی اور نہ اہلیت ، نہ عزت اور نہ وقار۔1980 سے لے کر اٹھائیس جولائی 2017 تک کی سیاسی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے بے قصور ہیں،کتنے معصوم ہیں اور کتنے صادق و آمین ہیں۔ ان کی سیاسی اہلیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین بار منتخب ہونے کے باوجود ہر بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے ۔کیوں۔ہر بار کون ان کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا،کیوں وہ آئینی مدت پوری نہیں کرتے رہے اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کو آئین و قانون کی پاسداری سے نفرت تھی ۔اپنے سیاسی استادضیاء الحق کی طرح اپنی ہر بات کو قانون سمجھتے تھے جس کی تعمیل لازمی ہوتی تھی سب اداروں کو آئین و قانوں کی مرضی کی بجائے اپنی ذاتی منشاء کے مطابق چلانا چاہتے تھے اورچلایا بھی ،کرپٹ عناصر کی خاموش حمایت جاری رکھی کہ نیویں نیویں لٹ مار کردے رہو، مینوں وی تنگ نہ کرو۔ اہم ترین اداروں میں من پسند اور بدعنوان افسروں کی تعیناتی ان کا محبوب سیاسی مشغلہ تھا سپریم کورٹ پر حملہ انہی کے دور کا سیاہ کارنامہ ہے جنگ گروپ کے خلاف بغاوت کے الزامات واپس لئے گئے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی گئی اور من پسند ججوں کو آگے لانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی سب سے زیادہ آئینی ترامیم انہی کے تین ادوار میں کی گئیں تیرھویں اور چودھویں ترامیم کے ذریعے ملکی تاریخ کے سب سے طاقتور وزیراعظم بنے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی دور مکمل نہ کر سکے ۔ا ن کاجمہوری دور میں دیگر سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دینے کی بجائے مذہبی جماعتوں کو اپنے قریب زیادہ رکھا انہی میں ایک جماعت نے ان کو نااہل کروانے میں بنیادی کردار بھی ادا کیا اٹھارویں ترمیم کے موقع پر پیپلز پارٹی کے بار بار کہنے کے باوجود باسٹھ،تریسٹھ آرٹیکلز کوختم نہ کیا کہ جماعت اسلامی اور مولوی فضلو کی ناراضگی کا خطرہ تھا آج اسی ایک سیاسی غلطی کا خمیازہ بھگتا۔یہی وہ آمرانہ سوچ تھی جس نے ان کو ہر بار ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ایمانداری اور بغیر تعصب کے اگر ان کے دور سیاست اور حکمرانی پر نظر ڈالی جائے تو یہی واحد وجہ سامنے آتی ہے کہ اداروں اور اہم ترین شخصیات کے ساتھ بار بار تصادم ان کی غیر جمہوری سوچ اور انفرادی فیصلوں، غیر قانونی اقدامات ، آئین اور اپنے حلف سے انحراف ہ کی وجہ سے ہوتا رہا ہے اداروں کے اندر سیاسی مداخلت کی سب سے بڑی قیمت خود وزیراعظم کو ادا کرنی پڑی ہے
پاکستان میں سابق وزیر اعظم کی سیاست کا دور1980میں اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا تھا جب گورنر غلام جیلانی کے دور میں اس کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا گیاتھا اس کے بعد وزارت عظمی پر پہنچنے سے پہلے دو بار وزیر اعلی پنجاب بھی رہے ان دونوں ادوار کے بارے میں اس وقت کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو 35 ارب کا نقصان پہنچایا گیا تھانواز شریف نومبر1990 میں پہلی بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد1992 میں کوآپریٹیوسوسائٹی کے نام سے ایک بڑے مالیاتی سکینڈل سامنے آیا اس میں سات لاکھ سفید پوش، اور غریب طبقے کی زندگی بھر کی کمائی لوٹ لی گئی تھی ۔خبروں کے مطابق اس وقت سترہ ارب روپے لوٹے گئے تھے سب سواسائٹیز کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا تھاقرض اتارو ملک سنوارو کے نام سے سب سے بڑے مالی فراڈ کو کون بھول سکتا ہے اس وقت کے اخبارات کے مطابق اربوں روپے کے فنڈ وزیراعظم فنڈ میں جمع ہوئے جن کا آج تک پتہ نہ چل سکا کہ وہ رقم کہاں گئی 1994میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حدیبیہ پیپرز ملز اور حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی کے خلاف خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا جس میں نواز شریف پر دھوکہ دہی اور رقم خوردبرد کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے لیکن تین سال بعد بطور وزیراعظم جون1997میں اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے باعث لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دے کر دونوں چالان کو خارج کرایااس ریفرنس کی بازگشت ایک بار پھر اسی پاناما کیس میں سپریم کورٹ میں سنی گئی اور قوی امکان ہے کہ یہ اب دوبارہ از سر نو سنا جائے گا۔اسی طرح رمضان شوگر ملز میں بھی بڑی رقم خورد برد کا کیس نیب میں بیس سال تک موجود رہا اور کبھی بھی کھلنے نہیں دیا گیا تھا کہانی یہیں تک ختم نہیں ہوتی
بدقسمتی سے عوام نے ہر بار ان کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کیا۔قومی احتساب بیورو جو کہ نیب کے نام سے مشہور ہے میں1999-2000 کے دوران سابق وزیراعظم کے خلاف درج کئے گئے مقدمات میں سترہ برس گزر جانے کے بعد آج بھی9 ریفرینسز باقی ہیں جن کی تفتیش جاری ہے ان میں چار انتہائی اہم نوعیت کے تھے ان میں ایک ہیلی کاپٹر کے نام سے مشہور ریفرنس ہے جس میں جج فرخ لطیف نواز نے1993 میں خریدے گئے چھ لاکھ پائونڈ مالیت کے ہیلی کاپٹر پر ٹیکس ادا نہ کرنے اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں چودہ سال قید اور دو کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی تاہم اس کیس میں صرف چھ ماہ قید میں گزارنے کے بعد لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری اور سعودی عرب کی مداخلت سے ایک معاہدہ کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے یہ مقدمہ اٹک جیل میں سنا جاتا رہا تھا۔ رائے ونڈ سٹیٹ کیس کے نام سے ایک ریفرنس نیب2000 میں نھجوایا گیا تھا جس کے مطابق رائے ونڈ میں ان کی ذاتی رہائش گاہ جاتی عمرا میںچار سو ایک کینال زمیں پر رہائشی تعمیرات کے حوالے سے جو رقم خرچ اور ادا کی گئی تھی وہ ان کے بیان کردہ اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے یہ ریفرنس بھی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد مارچ2014میں لاہور ہائی کورٹ سے ختم کرائے گئے اور نیب کوسپریم کورٹ میں اپیل نہ کرنے دی گئی۔پانا ما کیس کے دوران سپریم کورٹ نے نیب اور اس کے چئیرمین کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ سابق وزیراعظم کے دور میں نیب کے ادارے کو کس طرح سیاسی دبائو کے تحت ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اتفاق فائونڈری قرضہ کیس کے قصے پرانے قومی اخبارات میں موجود ہیں۔پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تحقیق کے دوران ہی یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 1970تک شریف فیملی کے اثاثوں کی ملکیت دس لاکھ مالیت تھی اوربھٹو دور میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی90۔1980- کی دہائی میں اثاثوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا اور انیس سو بانوے اور چورانوے کے دوران اثاثے چار گنا ہو چکے تھے1980میںپنجاب کے وزیر خزانہ بننے کے بعدہی دولت گھر میں تیار ہونے لگی تھی جس کا سلسلہ نا اہلی تک جاری تھا