سلیم صافی کے مضمون “اصل پاکستان اور ناقابل یقین انکشافات”

گیلپ سروے کے چند نتائج
گیلپ آف پاکستان کے اب تک ہونے والے سرویز کے جو نتائج ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے بتائے ان میں بعض نہایت دل خوش کن اور حوصلہ افزا بھی ہیں ۔ مثلاً عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں پولرائزیشن بڑھ گئی ہے اور گالی کا کلچر عام ہوگیا ہے لیکن سرویز بتاتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں پولرائزیشن کم ہوئی ہے ۔ ماضی میں نظریاتی تقسیم بہت گہری اور دشمنی کی حد تک تھی لیکن اب جبکہ سیاست سے نظریاتی تفریق رخصت ہوتی جارہی ہے تو اس منفی رجحان کا ایک مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ سیاست میں تلخی اور دشمنی کا عنصر کم ہوگیا ہے ۔
:
اسی طرح عام تاثر یہ ہے کہ پاکستانیت کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے لیکن سرویز بتاتے ہیں کہ لسانیت اور علاقائیت کے رجحانات ماند پڑ گئے ہیں اور پاکستانیت کا جذبہ مضبوط ہوگیا ہے ۔
:
ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کے بارے میں سروے کے نتائج بہت دلچسپ اور بعض تو ناقابل یقین بھی ہیں ۔ مثلاً تازہ ترین سرویز کے مطابق سیاستدانوں اور پارلیمنٹ پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ۔ میرے لئے خود اس بات کو ہضم کرنا مشکل تھا اور اعجاز شفیع گیلانی کے ساتھ اس پر کافی بحث بھی کی لیکن نہ صرف انہوں نے اعدادوشمار سامنے رکھے بلکہ یہاں بھی مجھے خواص اور عوام کی رائے کی تفریق سمجھا دی ۔ کہہ رہے تھے کہ شاید دس فی صد خواص کے اعتماد میں کمی آئی ہو لیکن عوامی سطح پر لوگ سیاستدانوں سے زیادہ جڑ گئے ہیں اور گزشتہ چار سالوں میں پارلیمنٹ پر اعتماد کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں پر عوام کے اعتماد کے لحاظ سے فوج پہلے نمبر پر جبکہ علماء دوسرے نمبر پر ہیں ۔ ماضی میں سیاستدانوں پر اعتماد کا معاملہ پولیس سے بھی نیچے ہوتا تھا لیکن اب پولیس کی بنسبت سیاستدانوں پر اعتماد زیادہ ہے ۔ اسی طرح چوہدری افتخار کے دور کی بنسبت عدلیہ پر اعتماد کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن ماضی بعید کی بنسبت اب بھی عدلیہ پر اعتماد کی شرح کافی بہتر ہے ۔ یہی معاملہ میڈیا کا بھی ہے ۔ گزشتہ تین چار سالوں میں میڈیا پر اعتماد کم ہوا ہے لیکن اسی اور نوے کی دہائی کےمیڈیا کے مقابلے میں موجودہ میڈیا پر اعتماد کی شرح کافی بہتر ہے ۔
:
خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی پاکستانی رائے عامہ بڑی دلچسپ ہے ۔ مثلاً پاکستانی عوام جس ملک کے بارے میں سب سے زیادہ بداعتماد ہیں وہ ہندوستان ہے لیکن عوام کی اکثریت اس کے ساتھ جنگ کی بھی متمنی نہیں ۔ اسی طرح بداعتمادی کے لحاظ سے دوسرا نمبر امریکہ کا ہے ۔ گویا ہماری اشرافیہ نے ستر (70) سال سے ہمیں جس ملک کا نمبرون اتحادی بنادیا ہے پاکستانی عوام انڈیا کے بعد اس کے بارے میں سب سے زیادہ بدظن ہیں ۔ اسی طرح پاکستانی عوام جس ملک پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں ان میں چین اور سعودی عرب شامل ہیں اور اس معاملے میں دونوں کی ریٹنگ ایک جیسی ہے ۔ ان دونوں کے بعد ترکی کا نمبر آتا ہے ۔ یہاں پھر عوام اور خواص کی رائے کا فرق سامنے آتا ہے کیونکہ اگر صرف خواص کی رائے لی جائے تو شاید سعودی عرب کی ریٹنگ اتنی بہتر نہ ہو۔
:
اسی طرح سروے بتاتے ہیں کہ ساٹھ فی صد پاکستانی عوام سی پیک کے حق میں ہیں جبکہ بیس فی صد اس کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں ۔ یہاں خود گیلانی صاحب نے وضاحت کی کہ شکوک و شبہات رکھنے والے زیادہ تر خواص اور کاروباری طبقات ہیں ۔
:
گیلانی صاحب بتارہے تھے کہ ان کے ادارے نے مارچ 2017ء میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے بارے میں ملک بھر میں تفصیلی سروے کیا اور پھر نتائج مرتب کرنے کے لئے 2013 کے انتخابی نتائج کی بھی جانچ پڑتال کی اور حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی کہ ووٹرز نے کم وبیش وہی رجحانات ظاہر کئے جو گزشتہ انتخابات میں ظاہر کئے تھے ۔ گویا مسلم لیگ (ن) اب بھی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہاں البتہ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے ووٹر کا رجحان بدل گیا ہے اور وہاں کوئی نمایاں رجحان سامنے نہیں آرہا ۔
:
سب سے بھیانک حقیقت ان سرویز میں یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت دیانتداری کوتو پسند کرتی ہے اور لیڈروں کی کرپشن کا رونا بھی بہت روتی ہےلیکن ووٹ دیتے وقت وہ امیدوار یا ان کے لیڈر کی دیانت کو نہیں بلکہ کچھ اور عوامل کو مدنظر رکھتی ہے۔ گویا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ لیڈر دیانتدار پسند ہے لیکن ووٹرووٹ دیتے وقت دیانت اور بددیانتی سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔