لواری ٹنل کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا
چترال کے مقامی صحافی گل حماد فاروقی کا کہنا ہے کہ چترال میں آج ہر طرف جشن کا سماں ہے اور لوگ سرنگ کھولے جانے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سردیوں میں لواری ٹاپ پر شدید برف باری کے باعث چار ماہ تک چترال کے لوگ ملک کے دیگر شہروں سے کٹ کر رہ جاتے تھے جس سے انھیں کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔
‘ایسے سمجھ لیں کہ جیسے چترالی چار ماہ تک پاکستانی نہیں ہوا کرتے تھے کیونکہ ان کا پاکستان کے کسی بھی شہر سے کوئی زمینی رابط نہیں ہوا کرتا تھا اور نہ کوئی ان کو پوچھنے والا تھا۔’
چترال سے کئی کلو میٹر دور لواری ٹنل میں ایک ہی وقت میں دو گاڑیاں باآسانی گزر سکتی ہیں۔ اس بڑے ٹنل کے ساتھ ایک چھوٹی ٹنل بھی بنائی گئی ہے۔
چترال کی طرف واقع یہ ٹنل تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر ہے جو مرکزی ٹنل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹنل کے کھل جانے سے اب چار گھنٹے کا سفر 15 منٹ میں بغیر کسی خطرے کے طے کیا جا سکے گا۔
سرنگ کے اندر سے گاڑیوں کا دھواں نکالنے کےلیے تاحال کوئی انتظام موجود نہیں جس سے زہریلی گیسوں کے اخراج کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا تاہم این ایچ اے حکام کے مطابق زیریلی گیسوں کے اخراج سے بچنے کےلیے سرنگ کے اندر بڑے ایگزاسٹ مشینیں نصب کرنے کا کام تیز کردیا گیا ہے جسے جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا۔
چترال کے ایک باشندے تیمور شاہ نے کہا کہ لواری ٹنل کا کھل جانا یہاں کے عوام کا ترقی کی جانب پہلا قدم ہے اور اب یہاں حقیقی تبدیلی آئےگی۔
انھوں نے کہا کہ لوگ حکمرانوں سے بڑے مایوس ہوگئے تھے کیونکہ کئی دہائیوں سے ان کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا نہیں کیا جا رہا تھا اور جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
خیال رہے کہ لواری ٹنل کی تعمیر سے پہلے چترال سے ملک کے دیگر شہروں کی طرف جانے والی تمام گاڑیاں لواری ٹاپ سے گزر کر جاتی تھیں جو سطح سمندر سے تقریباً 10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
یہاں اکثر اوقات حادثات پیش آتے رہے ہیں جس میں کئی افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
لواری ٹاپ موسم سرما میں شدید برف باری کے باعث چار ماہ تک بند رہتی ہے اور اس دوران یہاں سے پیدل جانا بھی محال ہوتا ہے۔