سزائے موت سیاسی آلے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے‘
نصیر احمد ظفر
ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت کو تیزی سے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جاہا ہے۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے کی گئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں موت کی سزا کے استعمال سے جرائم اور دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی ہوئی ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2014 میں سزائے موت کی بحالی کے بعد پاکستان میں مئی 2017 تک 465 قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، جس کے بعد پاکستان سزائے موت دیئے جانے والے ممالک کی فہرست میں چین، ایران، سعودی عرب اور عراق کے بعد پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔
سب سے زیادہ صوبہ پنجاب میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسیاں دی گئیں جن کا تناسب 83 فیصد رہا، تاہم اس کے باوجود 16-2016 میں صوبے میں قتل کے واقعات میں صرف 9.7 فیصد کمی آئی۔
دوسری جانب صوبہ سندھ میں اسی عرصے میں قتل کے واقعات میں کمی کی شرح 25 فیصد رہی، حالانکہ پنجاب میں 382 قیدیوں کو پھانسی دیئے جانے کے مقابلے میں سندھ میں 18 پھانسیاں دی گئیں۔
حالانکہ پاکستان میں قتل کے واقعات میں سزائے موت بحال کیے جانے سے قبل ہی کمی آچکی تھی، جس سے سزائے موت اور جرائم کی شرح کے درمیان پہلے سے مشکوک تعلقات پر مزید شکوک و شبہات بڑھتے ہیں۔
رپورٹ میں سامنے آنے والے چند مزید حقائق یہ ہیں:
پاکستان میں دسمبر 2014 میں سزائے موت کی بحالی کے بعد ہفتہ وار اوسطاً ساڑھے 3 قیدیوں کو سزائے موت دی گئی۔
دسمبر 2014 سے مئی 2017 تک سزائے موت پانے والے 465 قیدیوں میں سے پنجاب میں تختہ دار پر لٹکائے جانے والوں کی شرح 83 فیصد رہی۔
قتل کے واقعات میں سب سے زیادہ سندھ میں کمی آئی، جبکہ سزائے موت دیئے جانے کے حوالے سے شرح 4 فیصد رہی۔
پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد سزائے موت کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سزائے موت سے متعلق سالانہ رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں (اے ٹی سی) سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کا تناسب 16 فیصد رہا۔
سال 2015 میں اے ٹی سیز کی طرف سے سزا پانے والے 65 قیدیوں کو پھانسی دی گئی تاہم جنوری 2016 سے مئی 2017 تک یہ تعداد کم ہو کر 8 ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں زیادہ تر سزائے موت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کی جانب سے سنائی گئیں، جن کا دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کیسز پر دائرہ اختیار نہیں ہے۔
رپورٹ میں پنجاب سے متعلق یہ تشویشناک پہلو بھی سامنے آیا کہ صوبے میں سزائے موت کو جیل میں قیدیوں کے لیے جگہ بنانے کے آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے، اس وقت صوبے کی 27 جیلوں میں سے 25 میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے اور زیادہ تر سزائے موت انہی جیلوں کے قیدیوں کو دی گئیں۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا تھا کہ ’سزائے موت کے مسلسل استعمال سے پاکستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے وعدوں کی پاسداری اور فیئر ٹرائل اسٹینڈرڈز پر عملدرآمد میں کمی آرہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ سزائے موت جرائم اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موثر ٹول نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اسے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے تیزی سے استعمال کیا جارہا ہے۔‘