دوسری جنگ عظیم کے دوران ایشیاء کی تقریباً چار لاکھ خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا
بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایشیاء کی تقریباً چار لاکھ خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا
دستاویزی ثبوت کے مطابق جاپانی فوجیوں نے اپنی جنسی تسکین کیلئے فحاشی کے اڈے قائم کر رکھے تھے
چین اور جمہوریہ کوریا کے ماہرین نے گذشتہ روز ایک لسٹ کا انکشاف کیا ہے جس میں دوسری جنگ عظیم کی 135’’ جنسی تسکین بخش خواتین ‘‘ کے ناموں کی تصدیق کی گئی ہے ، 210افراد کی فہرست جن کا تعلق اصل میں جزیرہ کوریا سے تھا اور مشرقی چین کے صوبہ جی جیانگ کے شہر جنہوا میں رہتی تھیں ، جنہوا شہر کے محافظ خانہ میں رکھی گئی تھیں ، اس فہرست پر اپریل 1944ء کی تاریخ درج ہے، یہ دستاویزات 1980ء کی دہائی کے اواخر میں محافط خانوں سے بازیاب کی گئی تھی تا ہم محافظ خانے کے سربراہ چین یان یان کے مطابق اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، چین نے کہا کہ یہ 210افراد جزیرہ کوریا کے تھے اس دستاویز میں ان کی نام ، عمریں ، جائے پیدائش اور پیشوں کی تفصیلات دی گئی ہیں ، نومبر 2016ء میں شنگھائی نارمل یونیورسٹی کے ’’ کمفرٹ وویمن ‘‘ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر سو جائی لیانگ نے اس دستاویز کا مطالعہ کیا اور فہرست سے خفیہ گمشدہ معلومات دریافت کی ۔
سو نے کہا کہ فہرست میں شامل افراد فوٹوگرافر ، کاروباری افراد ، کیٹررز ، ڈرائیور ، شاپ اسسٹنٹ ، کنفیکشنری ڈیلر اور ٹرانسلیٹر تھے تاہم بیس سے تیس سال کی عمر کے درمیان کی 100سے زائد خواتین کے پیشوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں ، ان کے ایڈریس وہی پائے گئے جو کمفرٹ سٹیشنوں کے مالکان کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ا س نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ افراد اس سٹیشن کے لئے کام کرتے تھے اور وہ’’ تسکین بخش خواتین ‘‘ تھیں ۔
انہوں نے کہا کہ جبری ’’ تسکین بخش خواتین ‘‘ بنانا ناقابل بیان باعث شرم تھا لہذا ان کے پیشے فہرست میں درج نہیں کئے گئے ، ’’ تسکین بخش خواتین ‘‘ ایسی خواتین اور لڑکیاں تھیں جنہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے جنسی غلامی پر مجبور کیا ، 2010 افراد کی فہرست میں سے 147کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کمفرٹ سٹیشنوں پر کام کرتے تھے ،ان کی تعداد سات مالکان ، پانچ مینجمنٹ سٹاف اور 135’’ ’’ تسکین بخش خواتین ‘‘ پر مشتمل ہے۔
سو نے کہا کہ صرف جنہوا میں دس کمفرٹ ہائوسز تھے ، سو نے کہا کہ اس کے علاوہ دیگر کئی دستاویزات ہیں جو ان کمفرٹ سٹیشنوں کے وجود کی تصدیق کرتی ہیں ، نوے سال سے زائد عمر کی ایک چینی ’’ کمفرٹ خاتون ‘‘ نے بھی کمفرٹ سٹیشنوں کے وجود کی تصدیق کی ہے ۔سو نے کہا کہ اس نے اپنا نام بتانے سے گریز کیا ہے۔سنگ کیون کوان یونیورسٹی کے لی سن چیول نے کہا کہ یہ دستاویز اس امر کا اہم ثبوت ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جاپانی فوج نے جنگ عظیم دوم کے دوران ’’ کمفرٹ سٹیشنز ‘‘ قائم کئے تھے ۔
لی نے کہا کہ اس قسم کی دستاویزات جمہوریہ کوریا میں بھی پائی گئی ہیں ، ہم جنگی متاثرین کے ثبوت پیش کرتے رہیں گے اور جاپان کے حقوق کے علمبرداروں کے جھوٹے دعوئوں کی تصدیق کرتے رہیں گے ، یہ علمبردار تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں ۔سو نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایشیاء میں قریباً چار لاکھ خواتین کو’’ کمفرٹ خواتین ‘‘ کے طورپر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ، ان میں سے نصف چینی تھے۔