نریندر مودی تین روزہ دورے پر اسرائیل پہنچ گئے
نئی دہلی: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آج صبح اسرائیل کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم ہوں گے جبکہ وہ آج شام اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پہنچیں گے جہاں ان کے پرتپاک استقبال کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔
نریندر مودی اپنا دورہ اسرائیل مکمل کرنے کے بعد 6 جولائی کی شام جرمنی کےلیے روانہ ہوں گے جہاں وہ جی 20 کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی ایک ایسے وقت پر اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں جب ان دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعلقات بے حد مستحکم ہیں۔ بین الاقوامی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اگرچہ ماضی میں فلسطینی جدوجہد کا حامی رہا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب مودی سرکار اسرائیلی مؤقف کی خاموش حمایت میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ 1992 میں شروع ہونے والے بھارت اسرائیل سفارتی تعلقات کو ان دنوں 25 سال بھی مکمل ہورہے ہیں اور اس حوالے سے نریندر مودی کا دورہ اسرائیل خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ میں شائع شدہ ایک تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ اگرچہ مودی کی جانب سے زور دے کر یہ کہا گیا ہے کہ اس دورے کے ایجنڈے میں بھارت اور اسرائیل میں دفاعی تجارت کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہوگی لیکن پھر بھی اس موقعے پر ان دونوں ملکوں کے مابین کئی اہم دفاعی معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے۔ یہ بات اس لیے قرینِ قیاس ہے کہ اسرائیل وہ اہم ملک ہے جو بھارت کو جدید میزائل اور ڈرون فروخت کرتا ہے جبکہ ایسے کسی بھی نئے معاہدے کےلیے یہ ایک اہم موقعہ ہوگا۔
بھارتی دفاعی تجزیہ نگار راہول بیدی نے بی بی سی کےلیے اپنے بلاگ بعنوان ’’مودی کی بی جے پی اور اسرائیل کی سوچ ایک جیسی ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت اسرائیل تعلقات میں بی جے پی کی حکومت کے دوران تیزی آئی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بی جے پی اور اسرائیل کا سیاسی نقطہ نظر ایک دوسرے سے بہت ملتا جلتا ہے اور مودی کے دورہ اسرائیل سے ان دونوں ممالک میں جاری تعاون اور بھی بڑھے گا۔
راہول بیدی کے مطابق اسرائیل گزشتہ 15 سے 20 سال میں بھارت کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے والا چوتھا بڑا ملک بن کر سامنے آیا ہے جبکہ اس ضمن میں امریکہ، روس اور فرانس بالترتیب پہلے سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی ساز و سامان درآمد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور توقع ہے کہ وہ آئندہ کئی سال تک اسرائیل کا ایک اہم خریدار رہے گا۔
بھارت اور اسرائیل کے مابین خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی اس دورے کے نتیجے میں بہت بڑھ سکتا ہے جبکہ اسرائیل نے سفارتی، سیاسی اور دفاعی حوالوں سے بھارت پر واضح کردیا ہے کہ جس طرح اس کے ارد گرد کئی اسلامی ممالک ہیں اسی طرح بھارت کے سامنے بھی ’’اسلامی خطرہ‘‘ موجود ہے۔
ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی کا دورہ اسرائیل اس پورے خطے کےلیے دور رس نتائج کا باعث بن سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اس کے اوّلین اثرات مقبوضہ کشمیر میں اضافی بھارتی مظالم اور پاک بھارت سرحد پر جاری کشیدگی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔