سائنس و ٹیکنالوجی

نیوز اور میڈیا میں واٹس ایپ کے استعمال کا بڑھا ہوا رجحان

ایک نئی تحقیق کے مطابق میسیجنگ کے لیے معروف ایپ ‘واٹس ایپ’ اب نیوز اور میڈیا کے لیے بھی تیزی سے مقبول ہوتی جارہی ہے جس پر لوگ خبروں کو پڑھتے اور اس پر تبصرے بھی کرتے ہیں۔
لیکن اس کی مقبولیت الگ الگ ملکوں میں مختلف انداز سے ہے۔
ملائیشیا میں اس سلسلے میں جن لوگوں سے سروے کیا گیا ان میں سے 50 فیصد سے بھی زیادہ کا کہنا تھا کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار وہ واٹس ایپ کو نیوز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں اس کے برعکس صرف تین فیصد جبکہ برطانیہ میں اس کی تعداد پانچ فیصد تک ہے۔
یہ تحقیق خبر رساں ادارے رؤئٹرز کے ‘انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف جرنلزم’ نے کی ہے جس میں یورپ کے 34 ممالک سمیت امریکہ اور ایشیا کے کئی ممالک کو شامل کیا گیا۔
اس سے متعلق ڈیٹا تیار کرنے کے لیے ’یو گؤ‘ نامی ادارے نے 71805 افراد سے سوالات کیے۔
اس کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ دو ممالک کے علاوہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نیوز اور میسجنگ سروس کے لیے اب بھی سب سے زیادہ مقبول ہے۔ لیکن جاپان اور جنوبی کوریا میں فیس بک اتنی مقبول نہیں جتنی یو ٹیوب اور مقامی ویب سائٹ ‘ککاؤ ٹاک’ ہیں۔
اس ریسرچ سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ بیشتر علاقوں میں نیوز کے لیے فیس بک کے استعمال میں پہلے کے مقابلے میں کافی کمی آتی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس نجی میجسنگ ایپ، خاص طور پر واٹس ایپ پر نیوز سے متعلق مواد کو شیئر کرنے اور اس سے متعلق چیٹ کرنے جیسی سرگرمیوں میں اضافہ درج کیا گيا ہے۔
اطلاعات کے مطابق 36 مقامات میں سے نو میں واٹس ایپ نیوز کے لیے اب دوسری سب سے مقبول سوشل سروس بن چکی ہے، جبکہ پانچ ممالک میں یہ ایپ مقبولیت میں تیسرے نمبر پر ہے۔
محقیقین واٹس ایپ کی مقبولیت میں اضافے کے لیے کئی وجوہات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس ایپ کے میسیجز شروع سے آخر تک انکرپٹیڈ، یعنی انھیں صرف بھیجنے والا اور موصول کرنے والا ہی دیکھ سکتا ہے۔
اس کی وجہ سے پیغامات کو تحفظ حاصل ہے اور صارفین کو یہ خطرہ نہیں رہتا کہ حکام ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہوں گے۔
اس تحقیق میں شامل نک نیو میں کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے سب سے زیادہ اضافہ ترکی جیسے ملک میں دیکھا ہے جہاں لوگوں کے لیے فیس بک جیسی سائٹ پر کھلے عام حکومت کے خلاف کوئی بات کہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے لوگ ایسے خفیہ گروپس کا استعمال کرتے ہیں جہاں وہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے زیادہ پر اعتماد محسوس کرتے ہیں۔’
ڈیجیٹل نیوز سٹڈی سے اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ بریگزٹ کے حوالے سے جو بحث و مباحثہ ہوا اس سے لوگوں میں برطانوی میڈیا کے تئیں اعتماد میں کمی آئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق صرف 43 فیصد لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ میڈیا پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس گذشتہ برس 50 فیصد لوگوں نے میڈیا پر بھروسہ ظاہر کیا تھا۔
اس میں بی بی سی پر بھی اس بات کے لیے نکتہ چینی کی گئی ہے کہ بریگزٹ کے حوالے سے اس کا موقف تو یورپی یونین کی حمایت میں رہا لیکن یونین سے علیحدہ ہونے والوں کی جانب جو باتیں توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی رہیں بی بی سی انھیں ایکسپوز کرنے میں ناکام رہا۔
بشکریہ BBC Urdu

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button