ماں کی بد دعا
ایک معصوم بچہ رو رہا تھا ماں نے غصے میں کہہ دیا کہ تو مر جائے، اللہ تعالیٰ کو جلال آ گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی بددعا کو قبول فرما لیا، مگر بچے کو اس وقت موت نہ دی جب وہ بچہ بڑا ہوا تو عین جوانی کے عالم میں وہ ماں باپ کی آنکھ کی ٹھنڈک بنا،ماں باپ کے دل کا سکون بنا، جو بھی اس بچے کی جوانی دیکھتا وہی حیران رہ جاتا، عین عالم شباب میں جب وہ پھل پک چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو توڑ لیا۔ اس کو موت دے دی، اب وہی ماں رو رہی ہے کہ میرا جوان بیٹا بچھڑ گیا، مگر اسے بتایا گیا کہ تیری یہ وہی دعا ہے جو تو نے بچے کے لیے مانگی تھی مگر ہم نے پھل کو اس وقت نہ کاٹا اسے پکنے دیا جب یہ پھل پک چکا، اب اسے کاٹا ہے کہ تیرے دل کو اچھی طرح دکھ ہو، اب کیوں روتی ہے یہ تیرے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ ماں بددعائیں کردیتی ہے جب اپنے سامنے دیکھتی ہے کہ بد دعائیں قبول ہوئیں تو پھر روتی پھرتی ہے کہ میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا،میرے بیٹے کی زندگی خراب ہو گئی، اے بہن! یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ تو اپنے مقام سے نا آشنا ہے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تو نماز پڑھتی اور اپنے بچے کے لیے دعا کرتی اللہ تعالیٰ تیرے بچے کو بخت لگا دیتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بازار میں تشریف رکھتے تھے کہ جماعت کا وقت ہو گیا دیکھا کہ فوراً سب کے سب اپنی اپنی دکانیں بند کر کے مسجد میں داخل ہو گئے۔ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی شان میں یہ آیات نازل ہوئی رِجَال لَا تُل ھِیھِم تِجِارَة وَّلَابَیع عَن ذِکرِ اللّٰہِ ( سورہ نور پارہ ۸۱) ترجمہ پوری آیات شریفہ کا یہ ہے کہ ان مسجدوںں میں ایسے لوگ صبح اور شام اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد سے اور بالخصوص نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ خریدنا غفلت میں ڈالتا ہے نہ بیچنا۔ وہ ایسے دن کی پکڑ سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جائیں گی۔