اعتکاف ایک طرح کی مجاورت ہے
بشیر باجوہ سے
اعتکاف ایک طرح کی مجاورت ہے۔ یعنی کسی کے در پر جا بیٹھنا اور وہاں سے اٹھنے کا نام نہ لینا۔ اِس عمل میں بجائےخود تعبُّد کا ایک معنیٰ ہے۔ یعنی غلامی، فقیری، پرستش، تعظیم، محبت، چاؤ، امید اور انتساب۔ انتساب یعنی کسی کے در کا ہونا اور اس کے سوا ہر طرف سے ناامیدی ظاہر کرنا۔ مالک کے در پر بڑے دنوں تک پڑے رہنا؛ گویا کچھ لے کر ہی یہاں سے جانا ہے۔ ’’طلب‘‘ کی یہ ایک نہایت خوب زبان ہے۔ ’’اِلحاح‘‘ کا یہ ایک نہایت خوب اظہار ہے۔ اِلحاح یعنی گھگھیانا، مانگتے ہی چلے جانا، فریاد کرنے میں حد کر دینا، دامن سمیٹنے پر آمادہ ہی نہ ہونا، ہاتھ پھیلائے ہی رکھنا۔ عبدیت کی یہ ایک نہایت خوبصورت تعبیر ہے۔ نیز خدا کے ساتھ خلوت۔ حدیثِ بخاری کی رُو سے، رمضان کی آخری دس راتیں اعتکاف میں گزارنا نبیﷺ کا معمول رہا ہے۔ لیلۃ القدر کی تلاش آپﷺ کے یہاں اِسی اعتکاف کی حالت میں ہوتی۔
وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
===
اس سے پہلے لوگ خدا کے ساتھ خلوت کے ایسے خصوصی لمحات گزارنے کےلیے جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرتے تھے۔ اِدھر؛ خدا کے ساتھ خصوصی لو لگانے کےلیے خدا کے گھر آباد کرائے جانے لگے۔ چنانچہ اِس امت نے روئےزمین کو مساجد سے بھر دیا، اذان (تکبیرِخداوندی) کی گونج پورے کرۂ ارض پر سنائی دینے لگی؛ ہر چند قدم پر انسان صفیں بنا کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے لگے۔ اِس موضوع پر بےشمار نصوص وارد ہوئیں کہ خدا کے فرشتے کس طرح مساجد میں ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے پھرتے اور جہاں وہ ملیں وہیں ان کے گرد حلقے باندھ لیتے اور ان کے شریکِ مجلس ہو جاتے ہیں، نیز خدا کی رحمت اور سکینت ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور عرش پر ان کا ذکر ہونے لگتا ہے۔ سورۃ نور میں منکشف ہوا کہ خدا کے اِس نور کا محل زمین پر یا تو قلبِ مومن ہے یا پھر خدا کے وہ گھر جہاں عبادت گزاروں کے جمگھٹے لگتے ہیں۔
پس مسجدیں بیک وقت اجتماع گاہیں بھی ہوئیں اور خلوت گاہیں بھی۔ مساجد میں شوروغوغا اور مساجد کو گپ شپ کی جگہیں بنانا قربِ قیامت کی علامات میں گنا گیا ہے۔