سپریم کورٹ نے دھمکی آمیز بیانات سے متعلق کیس میں سینیٹر نہال ہاشمی کو جواب جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دے دی
اسلام آباد 17جون 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈ)
نہال ہاشمی کے دھمکی آمیز بیانات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بنیچ نے کی۔
سماعت کے دوران نہال ہاشمی کے وکیل حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل کے خلاف شکایت کیا ہے ہمیں نہیں بتایا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ‘تقریر کا مسودہ ساری دنیا کو ملا ہے آپ کو نہیں ملا، گوگل پر سرچ کرلیں سب مل جائے گا،آپ کے پاس اپنا دیا ہوا بیان بھی نہیں ہے، عجیب بات ہے نہال ہاشمی کو اپنا کیا ہوا یاد ہی نہیں’۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نہال ہاشمی کے ہاتھ میں پہلے ہی دن جواب تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نہال ہاشمی سے جلد بازی میں جواب نہیں لینا چاہتے تھے، انہیں جواب دینے کا پورا موقع دیا تھا، لگتا ہے آپ عدالت کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں جبکہ نہال ہاشمی کے کہنے پر ہی آج کی سماعت رکھی تھی۔
جس پر نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل اپنی تقریر سے انکار نہیں کر رہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ نہال ہاشمی نے کسی جج یا جے آئی ٹی کا نام نہیں لیا تھا جبکہ ان کے خلاف کراچی میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پراسکیوشن میں کوئی مسئلہ ہے تو بتا دیں؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پراسیکیوشن میں کوئی مسئلہ نہیں، عدالت کو مجھے پر اعتماد ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے تقریر کے مسودے کی کاپی بھی نہال ہاشمی کو فراہم کردی۔
نہال ہاشمی کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لیے 10 دن کی مہلت مانگ لی اور کہا کہ جن چینلز پر تقریر نشرہوئی، ان کی تفیصلات بھی درکار ہیں۔
دوسری جانب نہال ہاشمی کے وکیل نے فوجداری کارروائی کے لیے درخواست بھی کردی۔
عدالت نے کہا کہ نہال ہاشمی کو سوچ سمجھ کر جواب دینے کا موقع دیا، دوسری سماعت میں وکیل کے لیے وقت مانگا گیا، تیسری سماعت میں ٹرانسپکرپٹ کے لیے وقت مانگا گیا، انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آخری موقع دے رہے ہیں۔
بعدازاں عدالت نے نہال ہاشمی کے خلاف مقدمے کی سماعت 23 جون تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 31 مئی کو نہال ہاشمی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں اپنی جذباتی تقریر کے دوران لیگی سینیٹر دھمکی دیتے نظر آئے تھے کہ ‘پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی’۔
نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔
سینیٹر نہال ہاشمی کی غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی، جبکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔
تاہم بعدازاں نہال ہاشمی نے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی سے اپنا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دباؤ کے ماحول میں دیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہ کیے جانے اور بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو ‘دھمکیاں دینے’ اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔
انضباطی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں متنازع تقریر پر نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی، جس پر وزیراعظم نے کمیٹی کی متفقہ سفارشات کو منظور کرتے ہوئے نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس کی ہدایات کے مطابق خصوصی بینچ نے یکم جون کو اس کیس کی پہلی سماعت کی اور نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو لیگی سینیٹر کی تقریر سے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مذکورہ کیس کی 6 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو 16 جون تک جواب جمع کرانے کی مہلت دی تھی۔