خارجہ پالیسی بنتی کہاں ہے؟
اسلام آباد 14جون 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈ)
ممالک کی خارجہ پالیسیاں آخر بنتی کہاں ہیں؟ کیا یہ بند کمروں میں طویل اجلاسوں میں بنتی ہیں، وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں کسی غیرملکی ثالثی مشن کی پرواز کے دوران بنتی ہیں یا پارلیمانوں میں بنتی ہیں؟
اس کی تفصیل یا بو تک نہ تو وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سے، سرکاری میڈیا یا اس کے تشہیر کے ان گنت محکموں اور وزارتوں سے ملتی ہے اور نہ فوجی ترجمان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے۔
حکومت کے مخالفین خصوصاً شدت پسند تو اس بارے میں بات سات سمندر پار امریکہ تک لے جاتے ہیں کہ شاید خارجہ پالیسیوں کی فیکٹری وہاں کہیں لگی ہے۔
قومی اسمبلی کی قرار داد، اسلامی ممالک کو صبر کی تلقین
تو آخر پاکستان میں اس خارجہ پالیسی کی فیکٹری اتنے خفیہ مقام پر کیوں قائم ہے جہاں کسی عام آدمی کی آواز یا خواہش تو کیا پہنچے میڈیا کی جاسوس نظروں سے بھی اوجھل رہتی ہے۔
پارلیمان کے دو پاٹ مطلب دونوں ایوان حکومت سے خارجہ پالیسی کی تفصیل طلب کر کر کے تھک جاتے ہیں لیکن انہیں تسلی دینے کے لیے کم ہی وزرا کے پاس وقت ہوتا ہے۔ ان ایوانوں کے مکین پھر اپنا ایجنڈا ماروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموشی سے تبدیل کرلیتے ہیں۔
خیال آتا ہے کہ شاید ملک کے قرب و جوار میں جیسے کہ خلیجی ممالک سعودی عرب اور قطر تک کی پالیسی تو شاید اسلام آباد میں ہی بنتی ہوگی اور باآسانی ہر کسی کی دسترس میں ہوگی لیکن ایسا بھی کچھ نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر وزراء کی ٹیم کے ساتھ بھاگے بھاگے ’خلیجی ممالک میں پیدا صورتحال‘ کے تناظر میں سعودی عرب روانہ تو ہو گئے لیکن وہاں پاکستان کیا تجویز لے کر گیا، اس پر بات کیا ہوئی، فیصلہ کیا ہوا اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا طے ہوا اس بابت نہ سعودی حکومت اور نہ پاکستان کی جانب سے کوئی لب کشائی کا کشت ہوا۔
لوگ حیران ہیں کہ اس دورے سے نتیجہ کیا اخز کریں؟ کیا یہ محض سعودی شاہ کی جانب سے جدہ کے اسلام محل میں افطاری کی معمول کی دعوت تھی یا اس سے بڑھ کر کچھ اور؟
میرے جیسے صحافی سعودی پریس ایجنسی اور پاکستانی سرکاری میڈیا ٹٹولتے رہے کہ کچھ تو معلوم ہو کیا بات ہوئی لیکن اس بابت مکمل خاموشی ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ بھی جمعرات کے جعمرات ہفتہ وار بریفنگ میں ہی دکھائی دیتے ہیں اور بس۔
اس سے قبل اسی وزیر اعظم اور سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اوبال ختم کروانے کے لیے دونوں ممالک کے طوفانی دورے کیے تھے لیکن ان میں سے نکلا کیا آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
دونوں مسلمان ممالک کے درمیان کشیدگی تو اب بھی ہے لیکن ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں میں بظاہر کمی آئی ہے تو اس کا سہرا کس کے سر ہے؟ پاکستان کے ہوتا تو شاید حکمراں اس کو تسلیم کرتے نہ تھکتے لیکن یہ بھی جدہ یاترا کی طرح بس ایک دورہ تھا۔
سعودی قیادت میں قائم ہونے والے عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کا فیصلہ کیا کس نے؟ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔ بس ایک بیان جاری ہوا جدہ سے اور دو کروڑ عوام کو معلوم ہوا کہ پاکستان اس میچ میں بھی کھیل رہا ہے۔
پھر جنرل راحیل کب، کیسے اور کن شرائط پر سعودی عرب گئے کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ خود حکومت نے کبھی کہا کہ انھیں این او سی دے دی پھر کہا نہیں دی اور بل آخر وزیر دفاع خواجہ آصف نے مانا کہ ہاں شاید دے دی ہے۔
اس سے عقل ناقص سے جو نتیجہ اخز کیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ حالیہ بھاگ دوڑ کا مقصد خیلجی ممالک اور قطر کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کی کوئی کوشش ہوسکتی ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو اس بابت لوگوں کو یہاں اعتماد میں لینے میں کیا قباحت ہے؟ عوام کے سامنے تمام صورتحال رکھنے میں کیا مزائقہ ہے۔
آخر جس طیارے پر سفر کیا اور تیل جلایا وہ تو اسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیے ہوئے ٹیکس سے آیا ہے۔ اتنا تو ان کا حق بنتا ہے کہ نہیں؟ جس ملک کو کل وقتی وزیر خارجہ نہ مل سکتا ہو وہاں خارجہ پالیسی کی فیکٹری ڈھونڈنے کی ضرورت کیا ہے۔