انٹرنیشنل

برطانوی انتخابات: ٹریزا مے کا نئی حکومت بنانے کا اعلان

برطانیہ 09جون 2017
(منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی نیوز وائس آف کینیڈا)
برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اعلان کیا ہے کہ وہ حالیہ انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود نئی حکومت بنا رہی ہے۔
ٹریزا مے کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے حوالے سے اہم مذاکرات دس روز بعد مقرر کردہ وقت پر ہی شروع ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کے ساتھ خاص طور پر کام کریں گی۔
دوسری جانب ڈی یو پی کی رہنما ارلین فوسٹر نے کہا ہے کہ انھوں نے کنزرویٹیوز کے ساتھ بات چیت کی حامی بھر لی ہے جس میں موجودہ وقت میں برطانیہ میں استحکام قائم رکھنے کی راہ تلاش کی جائے گی۔
ڈی یو پی کی جانب سے جاری کردہ مختصر پیغام میں انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت پورے برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے مفادات کے بارے میں فکرمند ہے۔
تاہم اس بارے میں واضح نہیں کہ ڈی یو پی ٹزیزا مے کی حکومت کو کیا مدد فراہم کرے گی اور اس کے مطالبات کیا ہوں گے۔
اس سے قبل وزیراعظم ٹریزا مے نے دارالعوام میں اکثریت کا ملنے کے باوجود بکنگھم پیلس میں ملکہِ برطانیہ سے حکومت سازی کے لیے اجازت طلب کی تھی۔
ڈی یو پی کی رہنما ارلین فوسٹر نے کہا ہے کہ انھوں نے کنزرویٹیوز کے ساتھ بات چیت کی حامی بھر لی ہے
اطلاعات کے مطابق ٹریزا مے کی بکنگھم پیلس میں ملکہ کے ساتھ ملاقات 20 منٹ جاری رہی۔ ملاقات کے بعد وہ واپس ڈاؤننگ سٹریٹ روانہ ہو گئیں جہاں انھوں نے پریس بریفنگ میں کہا کہ وہ حکومت سازی کر رہی ہیں اور ان کی حکومت بے یقینی کو ختم کرے گی اور ملک کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرے گی۔
ٹریزا مے کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو اور ڈی یو پے مل کر کام کریں گے اور کئی سالوں سے دونوں جماعتوں کے خاص تعلقات ہیں۔
ٹریزا مے نے وعدہ کیا کہ وہ دس روز میں شروع ہونے والے بریگزٹ مذاکرات میں ملک کے مفادات کا تحفظ کریں گی اور برطانوی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالیں گی۔
ان کو امید ہے کہ شمالی آئر لینڈ کے ڈیموکریٹک یونینسٹ (ڈی یو پی) ان کی حمایت کریں گے۔
اس وقت صرف ایک نشست کا نتیجے کا اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے۔ کنزرویٹو جماعت 326 نشستوں سے آٹھ کم ہیں۔
ٹریزا مے نے بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ کے ساتھ ملاقات کی
لیبر جماعت کے سربراہ جیریمی کوربن نے ٹریزا مے سے کہا تھا کہ وہ حکومت سازی سے دستبردار ہو جائیں اور لیبر جماعت حکومت سازی کے لیے تیار ہے۔
جبکہ لبرل ڈیموکریٹک رہنما ٹم فیرن کا کہنا تھا کہ انھیں ‘شرمندہ ہونا چاہیے’ اور ‘اگر ان میں ایک اونس بھی اپنی عزت ہے تو’ انھیں مستعفی ہونا چاہیے۔
ٹریزا مے نے جب انتخابات کا اعلان کیا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب انھیں 12 نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں اور انھیں حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔
توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ کنزرویٹیو جماعت کو 319 نشستیں حاصل ہوں گی جبکہ لیبر پارٹی کو 261، سکاٹش نیشنل پارٹی کو 35 اور لبرل ڈیموکریٹس کو 12 اور ڈی یو پی کو 10 نشستیں ملی ہیں۔
کنزرویٹیو اور ڈی یو پی کے اتحاد سے ان کی کل دارالعوام میں کل نشستیں 329 ہو سکتی ہیں۔
ٹزیرا مے نے کہا ہے کہ ملک کو ‘استحکام’ کی ضرورت ہے جبکہ دس روز بعد بریگزٹ کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے۔
ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی بریگزٹ کی حمایت کرتی ہے
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹریزا مے ڈی یو پی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ غیررسمی طور پر معاملات طے کریں گی۔
ادھر لیبر پارٹی نے انگلینڈ، ویلز اور سکاٹ لینڈ میں 29 اضافی نشستیں جیتنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اقلیتی حکومت بنانے کے لیے ہیں۔
لیکن اگر وہ ایس این پی، لبرل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی اور پلائیڈ کیمری کے اتحاد میں شامل بھی ہو جاتی ہے تو ان کی کل نشستوں کی تعداد 313 بنتی ہے جو مطلوبہ اکثریت 326 سے کم بنتی ہے۔
دوسری جانب ڈی یو پی کے رہنما ملاقات کر رہے ہیں جنھیں اس نے ‘بے ترتیب’ صورتحال کے بارے میں بحث قرار دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button