کالم,انٹرویو

تجوریوں کے منہ

کالم :- طارق حسین بٹ شانؔ
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے قدرتی حسن اور بے پناہ وسائل کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔اس کے جوان بڑے با ہمت ہیں۔اس کے کسان بڑے جفا کش ہیں۔اس کے مزدور بڑے محنتی ہیں۔اس کے طلباء بڑے ذہین ہیں۔اس کے فوجی بڑے بہادر ہیں۔اس کے سائنسدان بڑے اولو العزم ہیں ۔اس کے مذہبی علماء بڑے باکمال ،اس کے شعرا بڑے فطین ہیں، اور اس کے شہری بڑے فراخ دل ہیں۔ہر وہ خوبی جو کسی قوم کو عظیم بنا نے میں ممدو معاون ہو سکتی ہے ربِ کائنات کی طرف سے بڑی فراخدلی سے پاکستانی قوم کو عطا ہو ئی ہے۔اس کا اپنا قیام بھی ۲۷ رمضان المبارک کی ایک ایسی بابرکت رات میں ظہور پذیر ہو ا جسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ انگریزوں اور ہندوئوں سے معرکہِ آزادی در پیش تھا تو اس قوم کے سپوتوں نے سات سال کی قلیل مدت میں اپنا ہدف حاصل کر کے ساری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔سات سال میں تو سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ بھی درست نہیں کر پاتیں چہ جائیکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہو جائے اور وہ بھی بت پرستی اور اصنام پرستی کے سب سے بڑے گڑھ ہندوستان میں۔۲۵ فیصد کی قلیل آبادی نے ۷۵ فیصد کی اکثریتی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا تو وہ محض اس وجہ سے ممکن ہو سکا تھا کہ اس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد تھی جسے شکست دینا ہندوترا کے پجاریوں کیلئے ممکن نہیں تھا۔ایک طرف قائدِ اعظم محمد علی جناح ،تھے،لیا قت علی خان تھے،سردار عبدالرب نشتر تھے،حسین سہروردی تھے ،شیرِ بنگال مولوی فضل ا لحق تھے ،نورالامین تھے،علامہ جی اے پرویز تھے تھے جبکہ دوسری طرف مہاتما گاندھی ،پنڈت جو ہر لال نہرو،دلبھ بھائی پٹیل اد اور سبھاش چندر بوس جیسے بڑے بڑے راہنما تھے جبکہ اپنوں ایک موج ظفر موج بھی ہندوئوں کے شانہ بشانہ اسلامی مملکت کے قیام پر بندھ باندھنے کے لئے مہاتما گاندھی کے ہاتھ مضطوط کر رہی تھی جن میں ابو الکلام آزاد علامہ عنائیت اللہ مشرقی،باچہ خان اور عنائت اللہ شاہ بخاری سرِ فہرست تھے لیکن پھربھی یہ سارے باہمی اتحاد اور منفی پروپیگنڈے کے علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کو روکنے میں ناکام ہو گئے تھے کیونکہ ایک درویش صفت شاعر اور درویش صفت قائد کی متفقہ سوچ اور جدو جہد کو شکست دینا ممکن نہیں تھا۔،۔
پاکستان کا قیام کسی معجزہ سے کم نہیں تھا کیونکہ اسلامی نظریہ پر کسی بھی مملکت کا قیام تاریخ میں ایک بالکل منفرد تجربہ تھا۔قائد کی عدیم ا لنظیر قیادت اور عوام کی بے شمار قربانیوں سے پاکستان کا حصول ممکن ہوا تھالیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے جس مقصد کیلئے پاکستان کا معرکہ سر کیا تھا اس کی لاج رکھی؟ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا واحد مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جو کہ قائم بھی ہو گئی لیکن اس کے بعد دو قومی نظریے کے ساتھ اشرافیہ نے جو گل کھلائے وہ بھی عبرت انگیز ہیں ۔قانون کی حکمرانی جو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی خوبی تھی اسے بھی ذا تی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔پاکستان اپنی فکری اساس سے محروم ہو ا توعالمی سازشوں سے اس کا ایک بازو اس سے کاٹ کر الگ کر دیا ۔قانون کی حکمرانی ایک خواب بن کر رہ گئی تو کرپشن اور لوٹ مار نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔اشرافیہ کا گٹھ جوڑھ اور اقتدار کی بندر بانٹ میں ملک کا استحکام اور یکجہتی پارہ پاری ہو گئی۔عوام دہائی دیتے رہے لیکن ان کی کسی نے ایک نہ سنی۔مختلف جماعتیں ذاتی مفادات کی اسیر ہو گئیں اور یوں پاکستانی خزانہ ذاتی خزانہ تصور ہو نے لگا ۔نہ احتساب کی تلوار اور نہ جواب دہی کا کوئی خوف کیونکہ اپوزیشن اور مقتدر حلقے اندر سے ملے ہوئے ہیں۔بیانات کی حد تک تو ایک دوسرے کے خوب لتے لئے جاتے ہیں لیکن جب باری احتساب کی آتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور ہر کوئی دم سادھ کر بیٹھ جاتا ہے۔نعروں کی حد تو ان کا کوئی جواب نہیں کیونکہ کوئی سینہ پھاڑ کر پیسے نکلوانا چاہتا ہے اور کوئی قومی دولت کو ہڑپ کرنے پر سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کرتا ہے لیکن انصاف کی تلوار کسی کے حلق پر نہیں چلتی کیونکہ انھیں خوف ہے کہ اگر احتساب کی تلوار نے کسی ایک کا گلا کاٹا تو کل احتساب کی اسی تیغِ سے اس کی گردن کی بھی خیر نہیں ۔ابھی تو پانامالیکس نے ملک کے مقتدر حلقوں کو جس بے دردی سے ننگا کیا ہواہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔پاناما لیکس میں اربوں کا حساب کوئی بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ اپنے ساری کرتوتوں کو چھپانے کیلئے شہزادے اور بادشاہوں کے خطوط عدالت میں پیش کیئے جا رہے ہیں جو اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے کہ ہماری دولت کے سارے انبارمنی لانڈرنگ اور بلیک منی کا شاخسانہ ہیں۔یاد رکھو جو قومیں عدل و انصاف سے ہٹ جاتی ہیں وہ حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں جبکہ عدل و انصاف کو اوڑھنا بچھونا بنانے والی قومیں فتح مندی،سرفرازی اور سطوت کی سزاوار ٹھہرتی ہیں۔،۔
آئے تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ سے انسباط کرتے ہیں جو عدل و انصاف کی ساری حقیقت کھول کر بیان کر دیگا ۔یہ فاروقِ اعظم کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے۔ان کے بیٹے پر شراب نوشی کا الزام لگایا گیا اور الزام ثابت ہونے پر ان کے بیٹے پر مصر ی گورنر عمرو بن العاص نے اپنے محل میں حد نافذ کر دی۔فاروقِ اعظم تک یہ بات پہنچی کہ ان کے بیٹے پر عوامی اجتماع کی بجائے محل کے اندر حد نا فذ کی گئی ہے جو کہ اسلامی روح کے خلاف ہے توفاروقِ اعظم نے عمرو بن العاص کو حکم جاری کیا کہ ان کے بیٹے کو فورا مدینہ بھیجا جائے تا کہ عوامی اجتماع میں اسلامی روح کے مطابق سزا پر عمل داآمد کو یقینی بنایا جائے ۔تعمیلِ ارشاد میں فاروقِ اعظم کے بیٹے کو مدینہ بھیج دیا گیا ۔بیماری اور راستے کی تکالیف کی وجہ سے ان کے بیٹے کی طبیعت بگڑ گئی لیکن وہ جیسے ہی مدینہ پہنچا اس پر حدنافذ کرنے کے احکامات جا ری ہو گئے۔ فاروقِ اعظم پر بڑا دبائو تھا کہ وہ اس معاملے کو کسی طرع سے نظر انداز کر دیں لیکن انھوں نے اولاد کی محبت کے سامنے قانون کی محبت کو سر بلند کر کے اہلِ جہاں کو پیغام دیا کہ اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام میں سب برابر ہیں۔ کسی کو کوئی خصوصی مقام حاصل نہیں ہے۔جو جرم کرے گا اس کی سزا پائے گا چاہے وہ کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو۔فاروقِ اعظم کا عدل و انصاف اسی لئے ضرب المثل ہے کہ انھوں نے قانون کی عملداری میں اپنوں اور غیروں کی تمیز ختم کر دی تھی ۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا حکمران ہو نے کے ناطے کیا ضروری تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو سرِ عام سزا دینے کا اہتمام کرتے حالانکہ مصر کے گورنر عمروبن العاص نے انھیں خاموشی سے اپنے محل میں سزا ے دی تھی؟ لیکن فاروقِ اعظم کی اس سے تشفی نہ ہوئی۔ان کا استدلال تھاکہ اسلام نے سزا کا جو طریقِ کار مقر ر کیا ہے عمر بن خطاب کے بیٹے کو بھی اس طریق سے گزرنا پڑے گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ رعایا کے بچے تو اس طریق سے گزارے جائیں لیکن جب باری عمر بن خطاب کے اپنے بیٹے کی آ ئے تو اس طریق کو بدل دیا جائے۔فاروقِ اعظم کے بیٹے کوسزا ہو گی اور اسلام کی متعین کردہ طریقہ کار کے مطابق ہو گی لہذا نھوں نے اپنے لختِ جگر کو سرِ عام سزا دے کر یہ ثابت کیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ جب خلیفہِ وقت حضرت عمر بن خطاب کے بیٹے پر حد نافذ ہو گئی تو پھر کیا مملکت میں رہنے والا کوئی شخص اس بات کی توقع رکھ سکتا تھا کہ عہدِ فاروقی میں کسی جرم کی وجہ سے اسے خصوصی رعائت مل سکتی ہے؟تاریخ کا ستم دیکھئے کہ انصاف کا معیار قائم کرنے والے دینِ اسلام کے پیرو کار ہی عدل و انصاف کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔جھنیںدنیا بھر کے لئے مثال بننا تھا وہی ڈاکہ زنی کے بعد کسی نہ کسی طرح سے چھوٹ جاتے ہیں ۔عوام دہائی دیتے رہ جاتے ہیں لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا کیونکہ ا شرفیہ کی ترجیح عدل و انصاف کو یقینی بنانا نہیں بلکہ اپنی تجوریوں کے منہ بھرنا ہوتا ہے جو بد قسمی سے ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی نہیں بھر رہے کیونکہ ان کے منہ کو ہوس کی بیماری لگی ہوئی ہے ۔،۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button