پیر نقیب الرحمن کے بارے میں جناب جبار مرزا کے چشم کشا حقائق
(عابد علی مغل گوجرانوالہ)
”سوشل میڈیا بھی عجیب مخلوق کا ٹولہ ھے ،جس کے منہ میں جو آتا ھے وہی بولے چلا جارہا ھے ، یہ صوفیائے کرام کا وہ سلسلہ ھے جس نے بر عظیم میں اسلام کی ترویج کے لئے کام کیا ھے ،
پیر نقیب الرحمن کے پڑدادا حافط عبدالکریم ایک صوفی درویش تھے ، آپ عظیم مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی نسل سے تھے کامران مرزا کی اولاد ہیں ، اور اسلام آباد میں بری شاہ عبدالطیف مشہدی کاظمی کے چہیتے خلیفہ حضرت شاہ حسین کی چھٹی پشت سے ہیں ، شاہ حسین وہی صوفی درویش ھیں جن کے مزار پر پہلا اور آخری سلام مشروط ھے ، راولپنڈی کی جامع مسجد جو شہر کے روئساء باغ سرداراں والے سوہن سنگھ اور موہن سنگھ تعمیر نہیں ہونے دے رہے تھے اس کا سنگ بنیاد 1906ء میں حافظ عبدالکریم نے اپنی نگرانی میں رکھائی پھر جب پیر صاحب گولڑہ شریف پیر مہر علی نے قادیانی مرزا غلام احمد کو چیلنج کیا اور حافظ عبدالکریم کو بھی لاہور چلنے کی دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کے مرزا غلام احمد سے مباہلہ میں شرکت نہ کی کہ گستاخ رسول کو دیکھنا بھی توہیںن رسالت ھے ، حافظ عبدالکریم ، 27 مصلے پیر مہرعلی سے سئنیر تھے یعنی راولپنڈی کی جس مسجد میں حافظ عبدالکریم نے 27 سال نماز تراویح پڑھائی ان کے بعد اسی مسجد میں تین سال تک پیر مہر علی نے نماز تراویح پڑھائی ، حافظ عبدالکریم کے بیٹے ، حافظ عبدالرحمان جو پیر نقیب کے دادا تھے وہ مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے ، مولانا شبیر عثمانی اور مولانا ظفر عثمانی کے ہم سبق تھے ، علامہ اقبال سے ان کی خط وکتابت تھی ، تحریک پاکستان میں وہ اپنے پیر بھائ ، علی پور سیداں والے جماعت علی شاہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ شامل رہے آپ دونوں کو چورا شریف سے خلافت ملی تھی ، پھر حافظ عبدالرحمان کے بیٹے حافظ حبیب الرحمان جو پیر نقیب کے والد تھے ، 1974ء میں جب قادیانی اقلیت قرار دینے کی قرار داد پر قومی اسمبلی میں بحث جاری تھی تو پاکستان بھر کے جید علمائے حق نے پیر حبیب الرحمان کے پاس ڈیرے ڈالے ہوئے تھے پاکستان کے اس وقت کے اٹارنی جنرل یحی بختیار کے سارے سوالات وجوابات عیدگاہ شریف کے اسی آستانے کی لائبریری سے تیار ہو رہے تھے اسوقت کوئی سنی وہابی یا دیوبندی نہیں تھا صرف مسلمان کے طور عید گاہ میں مقیم تھے راولپنڈی کینٹ کے مولاناسعید اور مفتی محمود بھی اسی آستانے سے رابطے پر تھے راولپنڈی کوہاٹی بازار والے مولانا عبدالحکیم بھی وہیں دیکھے جاتے تھے ، شاہ احمد نورانی تو تھے ہی ان کے ہم مسلک مولانا الحامد قادری بھی عید گاہ میں مقیم تھے ،
ایک چھوٹے سے روڈ بد مذگی کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا گیا آئے دن اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ، ایک دفعہ آزاد کشمیر کے صدر برگیڈئر حیات جو بعد میں میجر جنرل ہوگئے تھے ان کی گاڑی کا ایکسی ڈنٹ ہوگیا تو راولپنڈی صدر بیرونی کی پولیس بریگیڈئر حیات کو تھانے لے گئی وہاں جاکے پتہ چلا کہ یہ تو آزاد کشمیر کے صدر ہیں ، اخبارات نے اس بات کو خوب اچھالا تھا ، میں نے خود جنرل سے پوچھا تھا کہ آپ نے وہاں موقع پر کیوں نہیں بتایا کہ کشمیر کا صدر ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہ ماحول تعارف کا نہیں تھا فریق مخالف مشتعل تھا پولیس نے جب کہا تھانے چلو تو میں چلا گیا ،
بات کرنے کا مقصد یہ ھے کہ بلاوجہ جو منہ میں آرہاھے کہا جا رہا ھے اس آستانے کی اسلام کے لئے اور پاکستان کے لئے خدمات ہیں ، کچھ تو پاس کرنا چائیے ۔۔ عابد علی مغل ۔۔۔ 2 جون 2017ء”