یہودیوں کی مقدس دیوار ’’دیور گریہ‘‘ کے حوالے سے دلچسپ حقائق
اس دیوار کی داستان دلچسپ ہے۔ اسے یہودی، عیسائی اورمسلمان اپنے اپنے عقیدوں کے مطابق اہمیت دیتے ہیںاور اس جگہ کااحترام کرتے ہیں۔اس کے مختلف نام ہیں۔ عام طورپر اسے مغربی دیوار(WESTERN WALL)کہا جاتا ہے فارسی میں دیوارِ گریہ (آہ و زاری اور رونے کی دیوار) ، عربی میں المبکی (ALMABKY) کا نام دیاگیا ہے اس کے معنی بھی دیوارِ گریہ کے ہی ہیں۔ یہودی اس دیوار کو مذہبی اندازمیں مقدس ترین دیوار کہتے ہیں، وہ اس لیے اس سے لپٹ کرروتے ہیں کہ یہ اور اس والی دوسری دیواروں نے یہودیوں کے قدم معبدوں ( عبادت گاہوں) کو حصار میں لے کر محفوظ بنارکھاتھا، مگربعد کے ادوار میں یہ معبد مسمار کردیئے گئے اور دیوار کا بیشتر حصہ منہدم کر دیا گیا ۔ یہودی ان واقعات کے غم میں اس دیوار کے ساتھ لگ کر دیر تک روتے رہتے ہیں۔جمعہ کے روز رونے کا یہ عمل زیادہ ہو جاتا ہے جب یروشلم کے علاوہ دوسرے شہروں بلکہ ملکوں سے بھی یہودی یہاں آتے ہیں۔عیسائی حضرات کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کواسی جگہ مصلوب کیاگیا تھا۔ مسلمانوں نے اس دیوار کے مقام کو’’البراق‘‘کانام دے رکھاہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام آنحضورؐ اسی مقام سے البراق ( گھوڑا) پر سوار ہوکر حضرت جبرائیل کے ساتھ عرش معلی پر گئے تھے۔ اس سے انداز کیا جاسکتا ہے کہ اس دیوار مقدس کی اللہ نے کس طرح دشمنوں کے ذریعے حفاظت کروارکھی ہے ۔ حالانکہ یہ دیوار گریہ مسلمانوں کےلئے بھی اسی طرح مقدس ہے کیونکہ یہاں ہمارے آقا ومولا سردار انبیاء علیہ السلام کے قدمین مبارک لگے ہیں اوران قدموں کی وجہ سے یہ دیوار مزید مقدس قرار دی گئی ہے کیونکہ اسی دیوار سے سرکار دوعالم نے معراج کی رات آسمانوں کی بلندیوں تک اللہ پاک سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔یہودی بھی اسی دیوار کے پاس جاکر روتے ہیں ۔۔اورانہیں یہ بھی پتہ نہیں کیہ اس دیوار کو مقدس کیوں قرار دیا گیا ہے ۔ صرف وہ اپنے گراءے جانے والے معبد کی وجہ سے یہاں عبادت کرتے ہیں ۔اس دیوار کی موجود ہ لمبائی 1601 فٹ اور اونچائی 62فٹ ہے۔ اسے19قبل مسیح میں ایک یہودی’ ہیروڈ دی گریٹ ‘نے عبادت گاہ کے طورپر استعمال ہونے والی پہاڑی کے اردگرد تعمیر کیاتھا۔ یہ بات قبل ذکر ہے کہ تاریخ کے بیشتر ادوار میں یہودیوں کواس دیوار کے پاس جانے کی اجازت نہیں تھی۔ 1967ء میں چھ روزہ اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل نے یروشلم پر قبضہ کرلیا اور اس دیوار تک پھررسائی حاصل کرلی۔