آسامہ بن لادن کے اہل خانہ نے ایبٹ آباد آپریشن کی مکمل کہانی بیان کر دی
اسلام آباد: 25 مئی 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا )
اسلام آباد ۔ امل بن لا د ن ، اسامہ کی چوتھی اور سب سے چھوٹی بیوی نے پہلی مرتبہ اسامہ بن لادن کی موت کی کہانی بیان کر دی ۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کو دئیے گئے انٹرویو کے مطابق انہوں نے اس رات کے متعلق بتایا جب امریکی خصوصی فورسز نے 9/11 کے ماسٹر مائنڈ کو ہلا ک کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 10 مئی 2011ءکو اسامہ بن لاد ن کا قتل کیا گیا اس وقت میں اسامہ بن لادن اور 6 بچوں کے ہمراہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کی محفوظ پہاڑوں میں پناہ گزیر تھی۔ اس گھر میں اسامہ بن لادن کی دوسری بیوی خیریاہ اور اس کی تیسری بیوی سیہام اور بیٹا خالد موجود تھے ۔ جب کہ پہلی بیوی نجوا جس کی اسامہ بن لادن سے نوعمری میں شادی ہوئی تھی اور اس کے 11 بچے تھے ۔
وہ 9/11 کے واقعے سے محض دو روز قبل ہی اسے چھوڑ کر گئی تھی۔1 مئی 2011 ء کی رات 11بجے رات کے کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر جب ہم دونوں بستر پرلیٹے تو اسامہ بن لادن فوراً ہی سوگئے۔ اس وقت بجلی نہیں تھی جس کے باعث باہر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔میری آنکھ کچھ آوازوں کے باعث آنکھ کھل گئی ، اور مجھے کھڑکی پر کچھ سائے نظر آتے ہوئے دکھائی دیے۔ بن لاد ن کی بھی آنکھ کھل گئی اور وہ قدرے سہمے ہوئے دکھائی دیے۔
انہوں نے کہا کہ ” امریکی آرہے ہیں “۔ ایکدم ایک زور دار آواز آئی اور گھر لرز اٹھا۔ہم دونوں بالکنی میں چلے گئے ۔ اس رات چاند کی روشنی نہیں تھی اس لئےکچھ بھی د کھائی دینا مشکل تھا۔لان میں ہماری کی پہنچ سے دور دوامریکی فوجی موجود تھے اور وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔ سیہام اور خیریاہ دوسری منزل کی بالکنی سے دیکھ سکتے تھے کہ امریکی فوجی آرہے ہیں ۔
بن لادن نے اپنے بیٹے خالد کو آواز دی ، جو کہ اپنے رات کے لباس میں ملبوس تھا ۔ خالد نے AK-47 پکڑی ، جو کہ میں جانتی تھی اس نے 13 برس کی عمرسے استعمال نہیں کی تھی۔ میں نے اور سیہام نے روتے ہوئے بچوں کو دلاسا دیا۔تذبذب کا شکا ر ہم سب پہلی منزل پر چلے گئے۔ میں نے ایک دھماکہ کے ساتھ گھر کا دروازہ ٹوٹنے کی آواز سنی ۔ ”وہ میرے لئے یہاں آئے ہیں ، تمہارے لئے نہیں“ اسامہ بن لادن نے آخرکار کہا اور خاندان کو کہا کہ وہ سیڑھیوں سے نیچے چلے جائیں۔
دونوں بڑی بیٹیاں مریم اور سمیعہ بالکنی میں چھپ گئی اور سیہام اور بیٹا خالد نیچے چلے گئے ۔
فوجیوں میں سے ایک شخص عربی بول رہا تھا اور اس کو معلوم تھا کہ خالد کس سے مشابہت رکھتا ہے۔اس نے اس کو نیچے بلایا اور اس کو گولی ماردی ۔سمعیہ اور مریم نے بھاگنے کی کوشش کی تاہم انہیں اس عربی زبان بولنے والے نے دیوار کے ساتھ دھکا دے دیا۔ رابرٹ اونیل کمرے میں داخل ہوا۔
میں اپنے خاوند کے سامنے تھی ۔میں اونیل کی جانب بھاگی اور اس کو کسی دوسرے فوجی نے گولی ماری کیونکہ کمرے میں دوسرے فوجی بھی داخل ہوچکے تھے ۔ میری ٹانگ پر گولی لگنے کے باعث میں نیچے جاگری ۔ اس کمرے میں مزید فوجیں داخل ہوگئیں ا ور بن لادن کے گرد گولیو ں کی بمباری شروع کردی ۔
امل کا کہنا تھا کہ اس وقت اس کی آنکھ کھل گئی تھی لیکن مجھے انہیں یہی ظاہر کرنا تھا کہ میں مرچکی ہوں۔
میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور آہستہ سے سانس لینا شروع کیا۔ مریم اور سمعیہ کو فوجیوں نےگھیرےمیں لیا ہوا تھا اور اس کے باپ کی لاش پکڑی ہوئی تھی ۔ پہلے پہل مریم نے غلط نام بتایا ، لیکن سمعیہ نے کہا کہ انہیں سچ بتا دو وہ پاکستانی نہیں ہیں ، جس پر اس نے کہا ”میرے والد ، اسامہ بن لادن“۔خیریاہ جو کہ ہال میں موجود تھی اس سے ایک فوجی نے چیختے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میرے ساتھ جھوٹ بولنا بند کرو، اس نے جواب دیا ”اسامہ “
خصوصی فورسز نے اسامہ بن لادن کی لاش کو سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹا ۔
خالد سیڑھیوں کے زینے پر مردہ پڑا تھا، اس کی ماں اس کو چومنے کی کوشش کررہی تھی ، لیکن فوجیوں نے اس کو دور گھسیٹ دیا۔
فوجیوں نے اُسامہ بن لادن کی لاش ہیلی کاپٹر میں رکھی۔
اس کمرے میں میں موجود تھی اور چھوٹے بیٹے کو کانپتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔
کچھ منٹ بعد میں نے ہمسایوں میں سے ایک آواز سنی ، کیا کوئی ان میں سے زندہ ہے ۔
نیوز وائس آف کینیڈا پر اسامہ کے زندہ ہوے کی کہانی اپلوڈ ہونے کے بعد نجی انٹرنیشنل اخبار نے یہ انٹرو چلا دیا
کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ آپ خود پرھ لیں