21 مئی 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا )
حیدرآباد : سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ حیدرآباد 1988 کے ملزمان کو عدم ثبوت اور کمزور چالان کے باعث قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادرمگسی سمیت دیگر 40 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے بھی سانحہ حیدرآباد کیس کے تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا او گواہوں کا ملزموں کوپہچاننے سے انکار، کمزور چالان اورٹھوس شواہد نہ ملنے پر حکومتی اپیل خارج کردی۔
خیال رہے کہ سانحہ حیدرآباد کیس کی پہلے سیشن کورٹ میں سماعت جہاں پولیس اس کیس میں ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہ کر سکی اور ناکامی کی صورت میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تاہم سندھ ہائی کورٹ نے بھی ملزمان کوبری کردیا۔
یاد رہے 30ستمبر 1988 کو حیدرآباد کے مختلف پرہجوم مقامات پر فائرنگ کر کے صرف 15منٹ میں 250 افراد قتل کو کر دیا گیا تھا پاکستان کی تاریخ میں اتنے کم عرصے میں اتنا بڑا قتل عام پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جہاں ہر گلی اور چوراہا خون میں ڈوب گیا تھا۔
اسپتال ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے بھرگئے اور شہر بھر میں ایمرجنسی قائم کردی گئی تھی یہ وہ وقت تھا جب سندھ میں لسانی بنیادوں پر سیاست عروج پر تھی اور کئی بار لسانی فسادات نے صوبے میں سر اٹھایا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
سانحہ حیدرآباد میں مسلح موٹرسائیکل سواروں سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں میں نہتے اور معصوم افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا عینی شاہدین نے ان ملزمان کی شناخت قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی اور ان کے ساتھیوں کے طور پر کی، عوامی دباؤ پران کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
دوسری جانب قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادرمگسی نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد اوربد نیتی پرمشتمل قراردیا تھا۔
اس واقعہ سندھ میں سندھی بولنے والے اور اردو بولنے مقامی افراد کے درمیان خلیج اور تفریق کو مزید گہرا کردیا جس نے آئندہ آنے والے سالوں میں سیاست پر دور رس اثرات چھوڑے۔
ڈاکٹر قادر مگسی نے 1982 میں لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور اسی کالج سے عملی سیاست کا آغاز جئے سندھ اسٹوڈیٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا بعد ازاں اختلافات کے باعث علیحدگی اختیار کی اور ترقی پسند ونگ کی تشکیل دی جسے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ترقی پسند پارٹی کے نام سے پورے سندھ میں پھیلایا۔