رنگ برنگ

دنیا پر حکومت کرنے والی قوم مسلمان کا آج قتل عام کیوں ہو رہا ہے؟ ایمان افروز حقیقت جانئے

ایک وہ وقت تھا جب مسلمان مکہ مدینہ سے ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں مربع میل کی سلطنت کے امیر بن گئے اور ایک آج کا دور ہے کہ ہمارے زیرِ تسلط ممالک بھی ایک ایک کر کے ہم سے چھینے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ مسلمان تھے جنہوں نے قرآن و حدیث کو صرف یاد کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دین کو سمجھا۔ غور و فکر کو اپنا مشغلہ بنایا۔یہ علم اور تفکر سے محبت ہی تھی کہ دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی ہم مسلمانوں نے ہی قائم کی۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج ہم اول تو قرآن کی طرف جاتے ہی نہیں ہیں اور اگر جائیں بھی تو صرف پڑھ لینے کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو قرآن مجید کے تیس کے تیس سپارے پڑھا دیں گے لیکن مجال ہے جو اپنے بچوں کو کبھی ایک آیت کا ترجمہ تفسیر سکھائی ہو۔بچے تو بچے رہ گئے بڑوں نے کون سے چاند چڑھا دیے ہیں۔ مسجدوں میں نمازیوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن کمی ہوتی ہے تو ان نمازیوں کی جن کو نماز کے فرائض اور واجبات کا بھی پتہ ہوتا ہے۔ وضو اور غسل ہر عبادت کی بنیاد ہے لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ مستعمل پانی سے نہ وضو ہوتا ہے اور نہ غسل۔شاید ہم نے یہ نام بھی پہلی بار سنا ہے۔ شاید ہم اسے مولویوں کی خرافات کہہ کر ٹال دیں ۔ پھر نماز کیسے صحیح ہو سکتی ہے پھر ہم کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ یہ تو صرف ایک مثال تھی ایسے لا تعداد ضروری مسائل ہیں جن کو سیکھنا اور اپنے بچوں کو سکھانا ہم کبھی سوچتے بھی نہیں ہیں۔قرآن تو وہ باتیں ہیں جو اللہ نے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کیں یا جو آپ کے توسط سے ہم سے کیں۔ اگر ہمیں پتہ ہی نہ چلے کہ ہمارا رب ہم سے کیا کہہ رہا ہے تو بات کا مقصد کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔قرآن پاک بغیر سمجھے محض تلاوت کرنے کی بھی بہت فضیلت ہے لیکن یہاں سے بات شروع ہوتی ہے ختم نہیں ہوتی۔ ہم نے بات ختم بھی یہیں پر کی ہوئی ہے۔ قرآن مجید سمجھنے کر پڑھنے سے ہی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ دین کو سمجھے بغیر صرف عبادت سے بات نہیں بنتی۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاترجمہ۔’’ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘ابن ماجہ میں حدیث مبارکہ ہے۔حضر ت ابو ذرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’ اے ابو زر اگر تو جاکر اللہ کی کتاب کی ایک آیت کسی کو سکھائے تو یہ تیرے لیے سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ابو دائود، السنن، ۱:۹۷،رقم:۹۱۲)۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کی کتاب کو نظامِ حیات سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوا جائے اور دین کو اپنی حیات کا منشور بنایا جائے کہ ایک بار پھر وہی عروجِ ثریا حاصل ہو اور مسلمان نشاطِ ثانیہ کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button