بھارتی خدشات یکسر مسترد‘ چین کا ہر صورت سی پیک کی تکمیل کا عزم
چین نے سی پیک پر بھارتی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک منصوبہ خوش اسلوبی سے جاری ہے، بھارت مبالغہ آرائی سے باز رہے، خدشات بے بنیاد ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ اب عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہوگیا ،پاکستان میں توانائی کے سترہ میں سے گیارہ منصوبوں پر کام شروع کردیاگیا ہے،چین امن اورترقی کا وکیل ہے ، خطے میں بالادستی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریگا، مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ ہے ،امید ہے دونوں ملک اسے حل کر لیں گے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے بیجنگ میں معمول کی پریس بریفنگ میں سی پیک سے متعلق بھارت کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہاپاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خوش اسلوبی سے جاری ہے اور اب یہ جامع عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہاچین کی جانب سے اقتصادی راہداری لائحہ عمل کے فروغ سے مسئلہ کشمیر پر اس کاموقف تبدیل نہیں ہوا۔گینگ شوانگ نے کہاچین سمجھتا ہے کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی حل طلب مسئلہ ہے۔انہوں نے کہاچین کو امید ہے دونوں ملک مشاورت اور بات چیت سے مسئلہ کشمیر مناسب انداز میں حل کرلیں گے۔ترجمان نے کہا سی پیک پر بھارت مبالغہ آرائی سے باز رہے۔ اس منصوبے کی بدولت ہی ایشیا اور یورپ میں منڈیوں تک رسائی کے مختلف ذرائع سڑک، ریل اور بندرگاہ جیسے منصوبوں کو مربوط کرنے کیلئے چین مسلسل کام کر رہا ہے۔
جب سے پاک چین سی پیک منصوبہ شروع ہوا‘ بھارت کے پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت نے یہ منصوبہ رکوانے کیلئے اپنی سی کوششیں اور سازشیں کی ہیں مگر ناکامی اس کا مقدر رہی ہے۔ بھارت کے وزرائ‘ جرنیل اور بیوروکریٹ چین کے دورے پر جا کر ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ سی پیک پراجیکٹ ختم کیا جائے۔ وزیراعظم مودی خصوصی طور پر چینی قیادت سے مل کر سی پیک پر اپنے بے جا تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں مگر چین کی طرف سے اس منصوبے کی بھرپور وکالت اور حمایت کی جاتی ہے‘ بھارتی ڈھٹائی کی بھی کوئی حد نہیں ہے‘ اسکی طرف سے منصوبے کی بدستور مخالفت جاری ہے۔ اس نے سی پیک کو رول بیک کرانے کیلئے سازشوں کا جال بھی بنا۔ پاکستان میں انہی لوگوں پر پھر سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کی جو کالالاغ ڈیم پر بھارتی پروردہ ہونے کا حق ادا کررہے ہیں۔ اس نے بے بنیاد‘ لغو اور منفی پراپیگنڈہ کرکے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جس سے اہم شخصیات بھی متاثر ہوئیں۔ مولانا فضل الرحمان‘ اسفندیار ولی حتیٰ کہ خیبر پختونخواہ اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرکے مخالفت کی۔ حکومت نے انکے خدشات دور کرنے کی کوشش کی‘ سندھ اور خیبر پی کے کے وزرائے اعلیٰ کو چین لے جا کر چینی قیادت کے روبرو کردیا اور یہ لوگ وہاں سے ایسے مطمئن ہو کر آئے کہ آج سی پیک کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔ بھارت نے ’’را‘‘ کے اندر سی پیک کیخلاف ایک ڈیسک قائم کیا جس کیلئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے گئے مگر پاکستان میں سی پیک پر قوم اس قدر سنجیدہ اور حکومت کمٹڈ ہے کہ دشمن کو کوئی مخالفت کرنیوالے بکائو لوگ نہیں مل رہے اور یہ اگر کہیں ہیں تو بھی قیمت وصول کرکے دبک کے بیٹھے ہوئے ہیں جو مناسب موقع پر بھارت کی نمک حلالی کر سکتے ہیں۔ حکومت اور اداروں کو ان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
چین کی طرف سے سی پیک پر بھارت کو سخت الفاظ میں وعید بادی النظر میں گلوبل ٹائمز میں شائع ہونیوالا آرٹیکل ہے جس کے ذریعے بھارتی حکومت کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیاکہ چین جان بوجھ کر پاکستان اور بھارت کے تنازعات میں دخل اندازی کررہا ہے۔ اقتصادی راہداری کی بدولت متنازعہ علاقے کشمیر پر پاکستان کے مستقل کنٹرول کو جواز فراہم کررہا ہے۔ اس پر جہاں چین نے بھارتی خدشات کو یکسر اور دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا وہیں بھارت میں تعینات اپنے سفیر کے بیان کی نفی بھی کردی جس سے پاکستان چین تعلقات متاثر ہو سکتے تھے۔
حالیہ دنوں بھارت میں چین کے سفیر کاسی پیک کا نام بدلنے سے متعلق بیان سامنے آنے پر پاکستان نے احتجاج کیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیاکے مطابق نئی دہلی میں یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوشن سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر لوژوہوئی نے کہا تھا کہ ’’ ہم سی پیک کے نام کی تبدیلی پر غور کرسکتے ہیں، یہ ایک مثال ہے کہ چین بھارتی تحفظات کو اہمیت دیتاہے، چین پاکستان اور بھارت کی علاقائی سالمیت اور جغرافیائی جھگڑوں میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا‘‘۔ ان کا کہنا تھاکہ ’ سی پیک کا نام چین پاکستان انڈیا کوریڈور رکھا جا سکتا ہے۔ اس پیشکش کی خبر ملتے ہی حکومت پاکستان نے چین سے احتجاج کرتے ہوئے وضاحت مانگی جس کے بعد نئی دہلی میں چینی سفارتخانے کی ویب سائٹ سے سفیر کی تقریر کے متعلقہ حصے ختم کردیئے گئے اور مزید وضاحت چینی ترجمان نے کردی۔
بھارت ایک طرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں راہداری گزرنے پر سیخ پا ہے‘ اس کا عیاری و مکاری پر مبنی موقف ہے کہ یہ متنازعہ علاقے ہیں اس لئے سی پیک کو ان علاقوں سے نہ گزارا جائے۔ دوسری طرف اسکی سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبال کہتی ہیں کہ راہداری منصوبہ جموں کشمیر سے گزارا جائے تاکہ بھارت بھی اس میں شامل ہو۔ جو واقعی متنازعہ علاقے ہیں وہاں سے راہداری گزرے تو میٹھا میٹھا ہپ۔ پاکستان کے غیرمتنازعہ علاقوں سے گزرے تو کڑوا کڑوا تھو۔
چین نے بھارت کے خدشات‘ تحفظات‘ اعتراضات اور مخالفت کو سرمو اہمیت نہیں دی بلکہ سی پیک کی تکمیل پر پہلے روز کی طرح عزم و ارادے کا اظہار کیا جبکہ دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر ایک بار پھر زور دیا۔ مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف حقیقت پر مبنی ہے‘ وہ مقبوضہ کشمیر کو اسی طرح متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے جس طرح پاکستان اپنے موقف میں واضح کرچکا ہے۔ چین کئی حوالوں سے کشمیر ایشو پر پاکستان سے بھی زیادہ سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاں آمد پر کشمیریوں کیلئے بھارتی ویزہ قبول نہیں کرتا بلکہ سادہ کاغذ پر کشمیریوں کو ویزہ جاری کردیتا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حیثیت غیرمتنازعہ ہے‘ اسی لئے چین کو ان علاقوں میں راہداری گزرنے پر کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
بھارتی سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبال کے بقول راہداری منصوبہ جموں و کشمیر سے گزارا جائے تاکہ بھارت بھی اس میں شامل ہو تو اس کیلئے بھارت کو پہلے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہیے‘ پاکستان کے ساتھ دیگر تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرے‘ پاکستان کیخلاف سازشیں بند کرے‘ کنٹرول لائن پر آئے روز فائرنگ کا سلسلہ بند کرے‘ تب ہی خطے میں پائیدار امن قائم ہوسکے گا اور پھر ہی بھارت سمیت سی پیک کے تمام سٹیک ہولڈرز اس سے مستفید ہوسکیں گے۔ لیکن بھارت اس طرف نہیں آتا۔ وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان پر بھی میلی آنکھ رکھے ہوئے ہے۔اس تناظر میں بھارت کس طرح سی پیک کا حصہ بن سکتا ہے؟ بہرحال بھارت کی سازشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔