تعلیم یافتہ نوجوان145 دہشت گرد تنظیموں کا اہم اثاثہ کیوں ہیں؟
سیاسی جماعت ہو یا دہشت گرد تنظیم پڑھا لکھا نوجوان ہر کسی کی ضرورت ہوتی ہے، نوجوان نسل کو بلاشبہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کی جانب پہلا قدم تصور کیا جاتا ہے اوراگرملک بھرمیں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کا بغورجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اورامن کے قیام کے لیے پاکستان کی حکمتِ عملی میں نوجوان نسل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ مگر پھر بھی دولتِ اسلامیہ اور اسی قبیل کی دوسری انتہاپسند تنظیمیں ہرسال پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سےایسے انگنت معصوم نوجوانوں کو اپنےجال میں پھنسانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جو یقینی طور پرمستقبل میں ملک وقوم کی ترقی میں نمایاں کردارادا کر سکتے ہیں۔ نورین لغاری کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ خونریزی میں ملوث یہ انتہا پسند تنظیمیں ان بچوں کو بطور خودکش حملہ آور استعمال کرکے موت کی وادی میں دھکیل کر بے شمار گھرانوں کو اجاڑ دینے کا باعث بھی بنتی ہیں۔
ان حالات نے ملک کے ذمہ دارحلقوں اورخاص طور پران تمام لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جو ہمیشہ سے دہشت گرد ی کی وجوہات کو صرف غربت، نچلے طبقے اورغیرمستحکم معاشی حالات سے جوڑتے رہے ہیں۔ خوشحال گھرانوں کے پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیشہ سے جہادی اور انتہا پسند تنظیموں کے لیے تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں ۔ ان میں طالب علموں سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز، ماھرین ، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء حتیٰ کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔