یورپ میں لاکھوں مہاجرین کی آمد اور اس کے اثرات
کالم:- منور علی شاہد
گزشتہ دو سالوں یورپ سمیت جرمنی میں لاکھوں مہاجرین آباد ہوئے ہیں ان مہاجرین کی آمد نے یورپ اور یہاں کے دیگر ممالک پر گہرے سیاسی ، معاشی مذہبی اور سماجی اثرات مرتب کئے ہیں۔بہت سے ممالک کے مابین سیاسی کشیدگی بھی پیدا ہوئی اور آپس کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں بات اگر یہیں تک رہتی تو شاید مقامی لوگ زیادہ محسوس نہ کرتے لیکن بد قسمتی سے یورپین ممالک کو مہاجرین کی آمد کو قبول کرنے کا نتیجہ مقامی لوگوں اور حکومتوں کو دہشت گردی اور جنسی جرائم کی شکل کے واقعات میں بھگتنا پڑا ہے اسلامی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کے سیلاب کے اثرات کا اندازی اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے ممالک کے قوانین میں بھی تبدیلیاں کرنی پڑیں ہیں یورپ کے اندر مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور یورپ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا سہرا جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا میرکل کے سر ہی باندھا جائے گا جرمنی اس وقت یورپ کا سب سے بڑا اور طاقتور معاشی ملک ہے اور گزشتہ دو سالوں میں سب سے زیادہ مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی ہی نے قبول کئے ہیں جن کی تعداد ایک ملین کے قریب ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد شام کی ہے اس کے بعد عراق کا نمبر ہے علاوی ازیں افغانستان پاکستان سمیت دیگر ایسے یورپین ممالک بھی شامل ہیں جہاں سے لوگ صرف معاشی طور پرمستحکم ہونے کے لئے جرمنی پہنچے تھے لیکن ان کی ایک بڑی تعداد واپس بھجوائی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے۔ گزشتہ دو سال کا عرصہ جرمنی کی حکومت اور یورپ کے لئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہا اسی عرصہ میں مہاجرین کے بھیس میں دہشتگردوں کی آمد کے باعث یکے بعد دیگرے واقعات نے سالوں سے پرامن رہنے والے یورپین کو مشتعل کردیا
برلن میں کرسمس مارکیٹ کا واقعہ ، پیرس دہشت گردی کا واقعہ ، کولون ریلویسٹیشن پر نئے سال کے موقع پر جنسی حملوں کے واقعات سے بہت اشتعال پھیلاہے اور اس کے نتیجہ میں قدامت پسند جماعتوں اور قائدین کو سیاست میں فعال ہونے کا بھرپور موقع ملا اور انہوں نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ جرمنی میں خاص طور پر اس تبدیلی کو واضع طور پر محسوس کیا گیا اس کا اندازہ جرمنی میں متعدد نئے قوانین سے لگایا جا سکتا ہے جن کا سبب یہی مہاجرین اور تارکین وطن ہیں
جرمنی میں موجودہ چانسلرانجیلا میرکل ایک خاتون ہیں جو گزشتہ دس سال سے کامیابی سے جرمنی پر حکمرانی کر رہی ہیں ان کا موجودہ دور نے جو سال ستمبر میں ختم ہو رہا ہے جرمنی سمیت پورے یورپ کی سیاست اور کلچرپر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ تارکین وطن بارے انتہائی فراغ دل کی پالیسی کے باعث پہلی باردائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عام جرمن کی بھی سوچ کچھ کچھ بدلتی دکھائی دیتی ہے اس کو اگر ردعمل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جرمنی کا آئین مکمل طور پر سیکولر ہے اور یہاں مذہبی آزادی اور انسانی اقدار و انسانی حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اس لئے یہاں کے ادارے بھی ان کا تحفظ اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں عدالتیں بھی ان کی پاسداری کرنا فخر سمجھتی ہیں تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ اسلامی ممالک کے تارکین وطن نے گزشتہ دو سالوں میں جرمنی کی اس فراخدلانہ مدد کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور جرمنی کے قوانین کو توڑا یہاں کی روایات کو کچلا جس میں عورت کا احترام بھی شامل ہے ان منفی حرکتوں کی وجہ سے حکومت کو بادل ناخواستہ ایسے قدامات کرنے پڑ رہے ہیں جو ملک کے شہریوں اور ملکی قوانین کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہوچکے تھے فرانس ، ہالینڈ اور سویٹزر لینڈ میں حجاب اور پردہ بارے کچھ جزوی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔ جرمنی میں گزشتہ جمعرات کو پارلیمان کی ایک نششت میں ایک ایسا بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری اداروں میں کام کرنے والی مسلم خواتین کو اہلکاروں کو اپنا چہرہ دکھانا ہوگا اور حجاب پر مکمل پابندی ہوگی جس کی منظور اب ایوان بالا سے لی جائے گی تاہم اس کا اطلاق عوامی مقامات پر نہیں ہو گا ۔حکمران اتحاد جماعت کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی چیک کے حوالے سے منظور ہونے والی تجاویز میں ایک یہ بھی شامل ہے اور یہ صرف سرکاری اداروں میں کام کرنے والی مسلم خواتین پر ہی لاگو ہوگا اور اس کا بنیادی اور واحد مقصد سیکورٹی ہے اور دہشت گردوں کو فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے
اسلامی مہاجرین کی آمد کے بعد مسلمانوں کی سرگرمیوں کو محدود کردینے کے حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے حکمران جماعت نے واضع طور پر کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں پر قدغنیں نہیں لگائی جائیں گی اس حوالے سے جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جرمنی میں مقیم مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں کو محدود کرنے سے متعلق قانون متعارف کروانے کے مطالبات ہر گز پورے نہیں کئے جائیں گے اور یہ کہ مذہبی آزادی جرمن آئین کا ایک اہم جز ہے ۔وفاقی حکومت کے ترجمان اسٹیفان زائیبرٹ نے سوموار کو برلن میں یہ بیان جاری کیا اور ترجمان نے مزید کہا ہے کہ انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے مطالبات کے باوجود اسلام کے حوالے سے کوئی ایسی قانون سازی نہیں ہوگی جس سے ملک میں مقیم مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیاں محدود ہوں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں ہی سی ڈی یو کی نائب صدر نے یولیاکلو کنر نے ایک ایسے اسلامک لاء کا مطالبہ کیا تھا جس کے تحت ملک میں موجود مساجد کی بیرونی ممالک سے سے مالی معاونت پا پابندی ، مسلم مبلغین پر سخت تر قوائد و ضوابط ایسی پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا
اسلامی پابندیوں کے متعلق مطالبات پر اظہار خیال کرتے ہوئے چانسلر میرکل نے ایسے سب مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ایک مذہبی اقلیت کے بارے میں قانون سازی ایک غلب اقدام ہوگا انہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کو مسترد کرتی ہیں کہ جرمنی ریاست کو اپنا کوئی اسلامی قانون متعارف کرانا چاہئے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ میرکل اس ملک جرمنی کی سربراہ ہیں جو آبادی کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے اور سب سے زیادہ مسلمان اسی ملک میں بستے ہیں۔ میرکل نے ایک بڑے جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی بات کی تائید میں مزید کہا کہ جرمن معاشرے میں مسلمانوں کے انضہام کے عمل کو تیز اور بہتر کرنے کے لئے اسلام کانفرنس کا ایک پلیٹ فارم موجود ہے جو حکومت کی بہتر مدد کرتا ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کی مذہبی رواداری کی سب سے بڑی علمبردار جرمن چانسلر کی خود اپنی جماعت کی طرف سے ایسے مطالبات کئے گئے تھے جن کو چانسلر نے دلائل کے ساتھ مسترد کر دیا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اگلی ٹرم کے لئے جرمن کے نئے چانسلر کے انتخاب ہونے میں صرف چار ماہ باقی ہیں ستمبر میں نیا انتخاب ہوگا
کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے جرمن کے وزیر داخلہ نے اپنے ایک اخباری مضمون میں اسی صورتحال پر تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مذہب معاشرے کو اکھٹا کرنے والا عنصر ہے۔ جرمن ایک مسیحی ملک ہے اور ہم مذہب کے حوالے سے ایک پرامن ملک میں رہ رہے ہیں انہوں نے مزید لکھا کہ مذہب معاشرے کو تقسیم کرنے والا عنصر نہیں بلکہ جوڑنے اور اکھٹا رکھنے والا عنصر ہے