پاکستان کو ویران ہونے سے بچائیں
کالم:- منور علی شاہد
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان کو ، جو کہ عدالت ہی میں موجود تھے مخاطب کرتے ہوئے بہت سی نصائح کیں۔ فاضل چیف جسٹس صاحب نے براہ راست عمران خان کو مخاطب کرکے جو قیمتی نصائح کیں وہ سننے اور پڑھنے کے لائق ہیں عمل کرنے کے نہیں کیونکہ اگر عمل کرنے کا رواج یہاں ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچی ہوتی ۔ سیکھنے اور عمل کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے ۔ عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ لوگ آپ کو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں آپ کے پیچھے عوام کھڑے ہیں اس لئے آپ کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے آپ ایک عام آدمی نہیں ہیں۔آپ کی آواز سے بہتری بھی آسکتی ہے اور خرابی بھی، لیکن آپ نے مثبت کردار ادا کرنا ہے آپ قوم کو بے اعتمادی کی فضا سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جن کا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ قوم نے آگے بڑھنا ہے۔آپ میں لیڈر شب کی کوالٹی ہے اختلافی نوٹ ہر جگہ لکھے جاتے ہیں لیکن جتنا شور یہاں مچا ہے کہیں اور نہیں مچتا۔ چیف جسٹس نے عمران کی توسط سے تمام سیاست دانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور عدالت کے احترام کو یقینی بنائیں۔ ۔ قوم کا راہنما ہونے کی وجہ سے آپ سمیت تمام سیاست دانوں کی یہ ذمہ داری ہے عدالتوں کا احترام یقینی بنائیں میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے لوگ قانون سمجھتے نہیں میڈیا میں تبصرے کرتے ہیں
چیف جسٹس نے عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں کو جو عقل اور سمجھداری کی جو باتیں کہیں ہیں ان کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے جب سے پاکستان میں 1973کا آئین بنا ہے اس کے بعد سے پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے اب تک جو حالات و واقعات تاریخ کے صفحات پرلکھے جا چکے ہیں ان کو پڑھ کر تو یہی لگتا ہے کہ اس نازک دور اور تمام مسائل کی جڑموجودہ قیادتیں ہیں جنہوں نے قانون و آئین کو نہ صرف گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے بلکہ ایک دوسروں کے مفادات کا بھی تحفظ کرتے ہیں عوامی مسائل پس پشت ڈال رکھے ہیں ملک کے سماجی و معاشرتی بگاڑ میں ان کے طرز عمل کا بہت عمل دخل ہے چیف جسٹس نے یہ بلکل درست کہا ہے کہ لوگ آپ کے پیچھے ہیں اور آپ کو سنتے ہیں لہذا آپ ایسا بولیں جس سے عوامی شعور میں مثبت تبدیلی آئے اور معاشرے میں عدالت اور قانون کا احترام ہو اگر ایسی کوئی مثبت روایت پہلے سے موجود ہوتی تو شاید آج صورتحال کچھ مختلف ہوتی۔ چیف جسٹس کی یہ ایسی نصائح ہیں جو قوم کئی دہائیوں سے سن رہی ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب باتوں کا وقت گزر چکا ،اب عمل کرنے کا وقت ہے پاکستان میں اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ فوری اور سستا انصاف ہے جو ایک خواب ہی کی مانند بن کر رہ گیا ہے گزشتہ چند ماہ میں خود سپریم کورٹ کی طرف سے ایک دو نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے بہت سے ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن میں دھائیوں بعد قتل کے ملزموں کو انصاف ملا بہت سے ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں جن میں بیگناہ پھانسی پر لٹکا دئے گئے آئے دن ایسے فیصلے سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ دس دس، پندرہ پندرہ سال بعد جیلوں میں قیدافراد بیگناہ ثابت ہو رہے ہیں اور اس سے گھروں کے گھر ویران ہو رہے ہیںیہ سب کچھ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ پوری عدلیہ کے لئے ایک کھلے چیلنج کے مترادف ہے اس بات سے انکار نہیں کیا سکتا کہ عدلیہ میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے انصاف کا معیار نہ صرف گرا ہے بلکہ اس میں رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہیں اور پورا سسٹم بدبودار ہو چکا ہے ۔ آپ عدلیہ کو سیاسی و مذہبی اور ریاستی مداخلت سے بچانے کے لئے کچھ کریں۔ چھوٹی عدالتوں میں ایک غریب اور آدمی کو معمولی کیسوں میں جس طرح کی خجل خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے اسی طرح سیشن کورٹس اور کچہریوں میں عورتوں بیواؤں غریبوں کو انصاف و عدل کے لئے دربدر کی جو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اس کا اندازہ بھی عدلیہ اور حکومت کو ہونا چاہیئے ۔سپریم کورٹ سالوں سے لٹکے ہوئے کیسوں کے بارے میں کاروائی کرے۔ اور فوری نوٹس لے عید کے موقع پر کبھی جیل کے قیدیوں کو لانے والی اس بس کا وہ منظر دیکھیں جس میں قیدی موجود ہوتے ہیں اور کچہری میں ان قیدیوں کے لواحقین بیویاں مائیں اور بچے کس طرح ان سے ملتے ہیں وہ منظر کبھی آپ بھی دیکھیں۔ جیلوں میں ایک قیدی سے ملنے کے لئے لواحقین کو کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں کبھی اس طرف دھیان دیں چھوٹی عدالتوں کا قبلہ درست کرائیں وہاں فوری اور سستے انصاف کا حصول ممکن بنائیںیہی سب سے اہم ترین کام ہے ۔ چیف جسٹس صاحب یہ وعظ اور تلقین کے پروگرام بند کرکے ساکت عدل کی زنجیر کی طرف توجہ دیں اس تک رسائی ہر کی آسان بنائیں اور پاکستان کو ویران ہونے سے بچائیں ۔ پاکستان کو لوٹنے وار کھانے والوں سے اس قدر زیادہ خطرہ نہیں ہو سکتا جتنا عدل اور انصاف کے نہ ملنے سے ہوسکتا ہے ایک طوطا طوطی اور الو کی مشہور کہاوت ہے کہ ایک طوطا اور طوطی کا ایک ویرانے سے گزر ہوا۔۔ وہ ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔۔۔ طوطے نے طوطی سے کہا۔۔ لگتا ہے یہاں سے کسی الو کا گزر ہوا ہے۔۔ جس کی وجہ سے یہ بستی ویران ہو گئی ہے۔۔۔ طوطی نے سر ہلا کر طوطے کی بات کی تصدیق کی۔۔۔ ایک الو کسی دوسری ٹہنی پر بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ اڈاری مار کر ان کی طرف آیا ۔ ان کا حال پوچھا۔۔ اور پھر کہا ۔۔۔ آپ میرے علاقہ میں آئے ہیں میری خواہش ہے کہ آج کھانا میری طرف سے کھائیں۔۔ طوطا اور طوطی نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ کھانے کے بعد طوطا اور طوطی رخصت ہونے لگے تو الو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا تم کہاں جا رہی ہو؟ طوطی پریشان ہوئی اور بولی،،،، یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ جا رہی ہوں۔۔۔۔۔
الو یہ سن کر ہنسا اور کہا کہ۔۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔۔ تم تو میری بیوی ہو۔۔۔
اس پر طوطا اور طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی۔۔۔۔ الو بولا۔۔۔۔۔ یہ ہمارے مسئلہ کا حل نہیں ہے، تم اپنے دعوی پر ڈٹے رہو گے اور میں اپنے دعوی پر ڈٹا رہوں گا لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم عدالت میں جاتے ہیں۔۔
عدالت میں ججوں نے پوری تفصیل سے کیس سنا اور بالآخر فیصلہ سنایا کہ طوطی ، الو کی بیوی ہے ، لہذا طوطی الو کے حوالے کر دی جائے۔۔۔
یہ سب کر طوطا روتا ہوا ایک طرف چل پڑا۔۔۔۔۔ پیچھے سے الو نے آواز دی۔۔۔ اکیلے کہاں جا رہے ہو۔۔ اپنی بیوی طوطی تو ساتھ لیتے جاو۔۔۔۔ طوطے نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ اب میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو۔۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق طوطی میری نہیں ،تمہاری بیوی ہے۔۔۔
یہ سن کر الو نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ نہیں،، میرے دوست۔۔ طوطی میری نہیں تمہاری بیوی ہے۔۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو، ویران نہیں کرتے بلکہ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان بستیوں سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔۔۔