مقدمے کے فریقین، کس کا کیا موقف تھا؟
آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے متعلق پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آنے پر وزیراعظم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی، امیر جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ سمیت دیگر پٹیشنرز نے وزیراعظم کی نا اہلی اور معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا۔
پاناما لیکس کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ ہوا، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے موقف اختیارکیا کہ نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقاریر میں تضاد ہے، نواز شریف نے بیٹوں سے تحائف کی رقم وصول کی اور ٹیکس ادا نہ کیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1996 کے دوران خریدے گئے جو شریف خاندان کی ملکیت ہیں، مریم اپنے والد کے زیر کفالت اور آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک ہیں، وزیراعظم صادق اور امین نہیں، عدالت وزیراعظم کی تقاریر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی نا اہلی کا فیصلہ جاری کرے۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے کہ وزیراعظم کی تقریر میں اعتراف جرم موجود ہے، تمام ثبوت عدالت کے سامنے آ گئے ہیں، عدالت نااہلی کا فیصلہ جاری کرے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں اس لئے نا اہل قرار دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس عمر میں بچوں کے شناختی کارڈ نہیں بنتے، شریف خاندان کے بچے ارب پتی بن گئے، قطری شہزادہ نواز شریف کے لیے ریسکیو ون ون ٹو ٹو ہے۔
وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دفاع میں موقف اپنایا کہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر بیان حلفی نہیں تھا، تقریر میں جھوٹ نہیں بولا۔ وزیراعظم کا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک یا بینیفشل اونر ہیں۔
عدالت ٹھوس شواہد کے بغیر منتخب نمائندے کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کو آئین کے آرٹیکل 66 کا استحقاق حاصل ہے جس کے تحت پارلیمانی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، محض پارلیمنٹ میں کی گئی تقاریر پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔