کالم,انٹرویو

ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟

کالم:- منور علی شاہد
خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں تضحیک مذہب کے الزام میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشل خان کے قتل نے ایک بار پاکستان کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا یا ہواہے اس واقعہ کو رونما ہوئے کافی دن ہو چکے ہیں اس دوران صوبائی حکومت کی طرف سے جو تفصیلات منظر عام پر آئیں ہیں ان کو پڑھ کر ا یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ہر طرف جاہلیت ، جنونیت ، بربریت بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے اس کے اسباب کیا ہیں اور وہ کونسے عوامل ہیں جن کی سبب اس کو ہوا مل رہی ہے اس طرف توجہ دینے کا کسی میں حوصلہ دکھائی نہیں دیتا سرحدوں اور نظریات کی حفاظت کرنے والوں نے تعلیمی اداروں کی چاردیواری ہی گرا دی ہے کہ نفرت کی دیوی کے آنے جانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے یہ سب کئی دہائیوں کی اس ملائیت کا شاخسانہ ہے جوملک کے اندر ملکی سیاست کی چھاؤں میں پھل پھول رہی ہے قانون و آئین کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے اب خود اپنی نظروں سے وہ سب کچھ کٹتا دیکھ رہے ہیں جو انہی کے سیاسی اباؤ اجداد نے بویا تھاکیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ آج کی ملکی سیاست اور سیاسی جماعتوں میں ایسے سیاستدانوں کی اکثریت ہے جو اسی ڈکٹیٹر کے دور میں سیاسی طور پر پیدا ہوئے اور بلوغت کو پہنچے جس نے مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی بنیاد رکھی تھی مشال خان کا کوئی پہلا واقع نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد بار مشتعل ہجوم کی طرف سے اقلیت و اکثریت سے تعلق رکھنے والے افراد پرحملے کئے تھے اور متعدد کو زندہ بھی جلایا گیا لیکن چونکہ ماضی میں ایسے واقعات پر ریاست نے کبھی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا اور ہی مجرموں کو کٹھہرے میں لایا گیا بلکہ مٹی پاؤ پالیسی اختیار کئے رکھی اس کا نتیجہ آج تعلیمی ادارے میں اس واقع کی شکل میں سامنے آیا ہے ریاست ، سیاست اور عدلیہ کو یہ یقین کرنا ہو گا کہ کسی کو ناحق قتل کرنااور زندہ جلانا اور قانون ہاتھ میں لیناسب جرائم کی شکلیں ہیں ان واقعات کو جرم تسلیم کرے اور ایسے واقعات کوعقیدے یا فرقے کی نظر سے مت دیکھے بلکہ قانون و آئین کی نگاہ سے دیکھے۔ یہ واقعہ ایک تعلیمی ادارے میں ہوا جہاں انسانی ذہن کو انسانی اقدار کا سبق پڑھایا جاتا ہے ، احترام آدمی سکھایا جاتا ہے رواداری اور برداشت کے عملی مظاہرے دکھائے جاتے ہیں انہی اداروں سے ایسی قیادتیں جنم لیتی ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہیں اور تاریخوں کا رخ موڑ دیتی ہیں مشال کا واقع نے سب کی آنکھیں کھولی ہیں کہ دن میں خواب مت دیکھو بلکہ حقیقت کا اعتراف کرو کہ پاکستان میں ملائیت جاہلیت وحشت اور بَربَریت کا عفریت تعلیمی اداروں کے اندر تک پہنچ چکا ہے ۔ تین دہائیوں سے انتہاپسندی کی مذمت کرنے والوں نے اب بھی مرمت کا بیڑہ نہ اٹھایا تو یقین کرنا ہوگا کہ وہ دن دور نہیں جب یہ سب خود انہی کے ہاتھوں مشل خان کی طرح مارے اور تشدد کے بعد کچلے جائیں گے اور جنازے بھی وہ پڑہانے سے انکار کردیں گے جن کو آج تم نے شریعت کی تشریح کرنے کا ٹھیکہ سونپ رکھا ہے مشال خان کے قتل پرحکومتی و سیاسی اور عدلیہ کی شخصیات نے ردعمل کے طور پر جو کچھ کہا ہے وہ ریاست کی طرف سے اعتراف کے مترادف ہے کہ مذہب اب مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا ہے پاکستان کے اندر کی جنونیت و جذباتیت کا اندازہ لگانے کے لئے مساجد کے پیش اماموں کے کردار کو درست کرناہوگا کیونکہ اب تک پاکستان میں خصوصا پنجاب میں تضحیک مذہب کے نام پر جتنے بھی بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ان میں مساجد کے پیش اماموں کا بہت کردار رہا ہے جو بغیر تصدیق کے اعلانات کر کے علاقے میں اشتعال پھیلا دیتے ہیں جس پر لوگ مشتعل ہو کر قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔اس واقع میں بھی مشل خاں پر الزام کی تصدیق بھی نہیں ہوئی تھی لیکن امام مسجد نے نماز جنازہ پڑہانے سے انکار کردیا تھا اس بات پر یقین کرنے میں کوئی تردد نہ ہے کہ انسانی ہاتھوں سے بنایا ہوا ایک قانون اب آسمانی مذہب کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے جمعہ کو خیبرپختونخواہ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاتھا کہ ابتدائی تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ طالبعلم نے شان رسالتﷺ یا شعائر اسلام کی توہین کی ہو بلکہ یہ ذاتی عناد کا شاخسانہ ہوسکتا ہے اپوزیشن نے اس واقعہ کو جنونیت اور بربریت قرار دیا ہے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اس واقعہ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی قوم متحد ہوکر مشل خان کے قتل کے خلاف متحد ہو جائے طلبا کے ہاتھوں مشل کی ہلاکت پر افسردہ ہوں ووزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان میں مذہب کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم توہین رسالت کے غلط استعمال کو مسترد کرتے ہیں سابق وزیر اطلاعات و سینٹر پرویز رشید نے مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کا مطالبہ کیا ہے چند علمائے سیاست نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ توہین مذہب پر سزا دینا ریاست کا کام ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس کا دفاع بھی کیا ہے تضحیک مذہب کا قانون ایک فوجی حکومت کا تحفہ ہے اس کو کسی بھی سول یا جمہوری حکومت میں اب چھیڑا جانا ممکن نہیں رہا۔پی پی پی کی شیریں رحمان کا وہ بل سب کو یاد ہوگا جو انہوں نے پرائیویٹ بل کے طور پر پیش کیا تھا اوربعد میں پارٹی قیادت کو سرعام معذرت اور وضاحت کرنا پڑی تھی۔ اس نازک صورتحال کا تدارک صرف فوجی حکومت کے ہی دور میں ممکن ہے یا کوئی انہونی ہو جائے
قومی اسمبلی میں مشل خان کی دعائے مغفرت ہی اس کی بیگناہی کا ثبوت ہے اگر مستقبل میں اس قسم کے حادثوں سے بچنا ہے تو پھر اس کے قتل کے تمام مجرموں کو انصاف کے کٹھرے میں لانا ہو گا دنیا کو باور کرانا ہو گا کہ پاکستان میں حکومت اور عدلیہ انصاف کرنے اور دینے کی اہلیت رکھتی ہے اس واقعہ پر اقوام متحدہ کے پاکستان کے نمائندے کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ تعلیمی ادارے میں اس نوعیت کے واقعہ کا ہونا انتہائی تشویشناک ہے اور حکومت پاکستان کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے
کہتے ہیں کہ ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں، جو اپنے عدل و انصاف کے باعث نوشیرواں عادل کہلاتا تھا ایک بار شکار کے لئے گیا۔ شکار گاہ میں اس کے لئے کباب تیار ہو رہے تھے کہ اتفاق سے نمک ختم ہو گیا۔ شاہی باورچی نے ایک غلام سے کہا کہ قریب کی بستی میں جا اور وہاں سے نمک لا۔ بادشاہ نے نے بات سن لی۔ اس نے غلام کو قریب بلایا اور اسے تاکید کی کہ قیمت ادا کئے بغیر نمک ہر گز نہ لانا۔ غلام بولا۔۔ حضور والا ایک معمولی نمک کی کیا بات ہے۔۔ کسی سے مفت لے لوں گا تو کیا فرق پڑے گا۔ نوشیرواں نے کہا ضرور فرق پڑے گا۔ یاد رکھو۔۔۔۔ ہر برائی ابتدا میں معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن پھر وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی بن جاتی ہے کہ اسے مٹانا آسان نہیں ہوتا ہے۔
ماضی میں ایسے واقعات کو معمولی نہ سمجھا ہوتا تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ہر حکومت نے اپنے دور میں ہونے والے ایسی واقعات پر مفادات کو ترجیح دی اور یہ ان کے حلف کے منافی ہے لہذا اس معاملہ پر سیاست کرنے کی بجائے اجتماعی مفاہمت کا راستہ اپنا کر اس کے غلط استعمال کے آگے بند باندھا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button