بھارت ٹوٹنے کے قریب (بھارت میں زور پکڑتی’’دلت موومنٹ ‘‘)
کالم :- طاہر محمود
صدیوں سے ہندوستانی معاشرہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ایک بڑا مسئلہ ہے- مانو سمریٹی (ہندو قانون دان) کے قانون کے مطابق، ہندوؤں کی چارذاتیں ہیں اور کوئی پانچویں ذات نہیں ہے- چار ذاتیں براہمن،کشتریا،ویشاس اور سدراس ہیں- مانو کے قانونِ درجہ بندی کے مطابق اچھوت چوتھے درجے جو کہ سدراس ہے، کے بعد آتے ہیں اور یہ لوگ اچھوت (دلت) کہلاتے ہیں- یہ ہے وہ ذات پات کا قانون جو دلت کمیونٹی کے معاشرتی حقوق کی دھجیاں اڑاتا ہے-اِس قانونِ تقسیم کے تحت لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے ذات پات کے ایسے چکر میں جکڑے ہیں جو ان کو ناپاک اور جانوروں سے بھی بدتر گردانتا ہے اور اِن کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر امتیازی و انسانیت سوز سلوک برتا جاتا ہے- در حقیقت یہ دنیا میں سب سے بڑی انسانی سمگلنگ کے متاثرہ ہیں-
دلت (دبے ہوئے، ٹوٹے ہوئے،اچھوت) کوئی نیا لفظ نہیں ہے- یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ۱۹۳۰ء میں ہندی اور میراٹھی ترجمہ میں دبی ہوئی ذات یا لوگوں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے-برطانوی بھی اِس لفظ کو موجودہ نظام ِ ذات پات کے تناظر میں اچھوت کے لیے استعمال کرتے تھے- ڈاکٹر امبتکرنے دلت کے لیے ۱۹۴۸ءمیں اپنے پیپراچھوت(The Untouchables) میں ٹوٹے انسان(Broken man) کی انگریزی اصطلاح استعمال کی ہے-لفظ دلت ’’جِس کا مطلب ٹوٹے ہوئے یا دبے ہوئے‘‘ کا استعمال خود اچھوت لوگوں کے طرف سے اپنی محرومی، شناخت اور باہمی آزادی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے-
۲۰۰۶ءمیں بھارت کے دیہی علاقہ جو کہ گیارہ (۱۱)ریاستوں کے پانچ سو پینسٹھ (۵۶۵) دیہات پر مشتمل تھا،اچھوت لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا جِس نے ظاہر کیا کہ تقریباً اسّی(۸۰)فیصددلت دیہی علاقوں میں رہتے ہیں- اِن کی اتنی زیادہ موجودگی اِس بات کی عکاس ہے کہ صرف بیس (۲۰)فیصد لوگ شہری آبادی میں رہتے ہیں- تاہم اِن کی اکثریت بھارت کے شہروں کی کچی آبادیوں میں پائی جاتی ہے جو کہ تقریباً سات (۷)ملین دلت لوگ ہیں-
دلت بھارتی آبادی میں سب سے کم ترمعاشرتی حیثیت کے حامل ہیں-اِن کو اکثر ہندو ؤں کی معاشرتی زندگی سے الگ رکھا جاتا ہے- اِن کی دولت کتے اور گدھے ہیں،اِن کے کپڑے مُردوں کے بقایا جات ہیں،یہ ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں اور سیاہ لوہا اِن کے نمائشی آلات ہیں،یہ ہمیشہ در بدر ہوتے ہیں اور رات کو گاؤں کے اندر نہیں سوتے- یہ بات قابلِ امر ہے کہ دلت دیہات سے الگ آبادیوں میں رہتے ہیں اور باقی ذات کے لوگ دیہات میں رہتے ہیں- صدیوں سے یہ لوگ مذہبی، معاشرتی،ثقافتی اور زیادہ تر معاشی لحاظ سے استحصال کا شکار ہو چکے ہیں- اونچی ذات والے دلت سے شادی نہیں کرتے-اکثریت دلت آبادیاں غریب، ان پڑھ، اور دو ڈالر ایک دن کی آمدن رکھتے ہیں-
چونکہ دلت مرد و عورت دونوں امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں مگر دلت عورت، دلت مرد کی نسبت زندگی کے ہر شعبے میں زیادہ امتیازی و ناروا سلوک کا شکار ہوتی ہے-یہ غربت سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور اکثر بالا ذات والوں کی طرف سے جسمانی و جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے-بھارت میں دلت عورت کا رہنا بہت مشکل ہے- درحقیقت یہ دلت میں ایک اور دلت قوم کی حیثیت سے رہتی ہے- دیہی بھارت میں ستر(۷۰) فیصددلت عورتیں ان پڑھ ہیں-عورتوں کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں-اسی طرح دلت عورتوں کو دوسرے انسانی و قانونی حق بھی حاصل نہیں-ایک طرف تو دلت عورتیں اچھوت کہلاتی ہیں تو دوسری طرف بالا ذات کی طرف سے ان کو بد ترین زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے-ذات پات کے ظالمانہ نظام کے تحت اِن عورتوں پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے کیونکہ اِن کی آواز کو اِس نظام نے دبا رکھا ہے اور کوئی حق نہیں دیا جاتا-جنوبی ریاستوں میں اِن عورتوں کو بالغ عمری سے پہلے ہی جنسی غلاظت میں پھینک دیا جاتا ہے- جو گنیظ (Joghinis) جِس کا لفظی ’’بھگوان کی نوکر‘‘ کے ہیں جو کہ دلت معاشرے سے ہوتی ہے-ایک بار عورت اِس کام کے لیے مختص کر دی جائے تو وہ شادی نہیں کر سکتی یا اِس کو بالا ذات کے لیے جنسی غلاظت کے طور پر کام کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے اور اکثر شہری علاقوں میں فروخت کر دیا جا تا ہے-
بھارت میں دلت کی نوکریوں،صحت،تعلیم اور بعض اوقات خوراک کے لیے آخری قطار ہوتی ہے- انسانی گندگی کی صفائی،موت کی خبر دینے کے لیےیا چمڑے پر کام کے لیے صرف دلت مختص ہیں- بھارت میں ذات فیصلہ کرتی ہے کہ انسان کس کام کے قابل ہے-بھارت میں دلت کے خلاف غیر انسانی اورتشدد کی بھیانک کاروائیاں جیسے مظالم ہوتے ہیں- دلت اعلیٰ ذات سے کم ذات کے معاشرتی و معاشی استحصال کی مثال ہیں-
بین الاقوامی دلت یکجہتی نیٹ ورک (INTERNATIONAL DALIT SOLIDARITY NETWORK (IDSN) سروے کے مطابق تقریباً اڑتیس (۳۸)فیصد دلت آبادی سکولوں میں الگ بیٹھتے تھے،تقریباً ستائیس (۲۷)فیصد پولیس اسٹیشن میں داخل نہیں ہو سکتے اور تقریباً پچیس (۲۵) فیصد دلت آبادی خوراک کی دوکانوں میں داخل نہیں ہو سکتے-تقریباً تینتیس (۳۳)فیصد صحت آفیسرز نے دلت گھروں کا دورہ نہیں کیا- تقریباً چودہ (۱۴) فیصد دلت لوگوں کو مقامی حکومتی تنظیم یا پنجائیت میں داخل نہیں ہونے دیا گیا-بارہ (۱۲)فیصد دلت لوگوں کو الیکشن سے روکا گیا اور اکثریت کو الیکشن کے دوران الگ لائن میں لگایا گیا-تقریباً اڑتالیس(۴۸) فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی نہیں دی گئی-پینتیس(۳۵) فیصد لوگوں کو بازاروں میں اشیا ء کی فروخت سے روکا گیا- سنتالیس (۴۷)فیصد لوگوں نے دلت لوگوں کو دودھ دینے اور پچیس(۲۵) فیصد لوگوں نے دلت لوگوں سے دودھ لینے سے انکار کیا- کام میں تاخیر کی صورت میں لفظی و جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ پچیس(۲۵) فیصدلوگوں کو عام دلت مزدوروں سے بھی کم معاوضہ دیا گیا-سینتیس (۳۷) فیصد دلت لوگوں کو چھونےسے بچنے کےلئے فاصلے سے معاوضے کی ادائیگی کی گئی-دلت آبادی کو مذہبی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں-چونسٹھ(۶۴) فیصد دلت لوگوں کو مندروں اور پچاس(۵۰) فیصدلوگوں کوشمشان گھاٹ (مُردوں کو جلانے والی جگہ) میں جانے سے روکا گیا-تہتّر (۷۳)فیصد لوگوں کو غیر دلت لوگوں کے گھروں میں داخلے سے روکا گیا اور ستر (۷۰)فیصد دلت غیر دلت کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھا سکتے-تقریباً پینتیس(۳۵) فیصددلت لوگوں کو دیہاتی دوکانوں میں داخلے سے روکا گیا-بین الاقوامی دلت یکجہتی نیٹ ورک کی سروے رپورٹ کے مطابق :
’’ تشدد بشمول جنسی زیادتی اعلیٰ ذات کی طرف سے سارے دلت معاشرے کے خلاف سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے‘‘-
دلت کے خلاف جرائم کی شرح بھی بہت ہے-سرکاری جرائم کے (۲۰۰۱ء-۲۰۰۵ء)اعدادوشمار کے مطابق،اوسطً ہر روز دلت معاشرے کے خلاف ستائیس (۲۷)(سالانہ کم و بیش دس ہزار) مظالم سامنے آتے ہیں جِن میں بالا ذات کے لوگوں کی طرف سے روزانہ تین (۳)دلت عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور گیارہ لوگوں کو مار پیٹ کا شکار بنایا جاتا ہے ، ۲۰۰۵ءسے ۲۰۱۵ءتک کم و بیش دس ہزار دلت عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا – ہر ہفتہ میں اوسطً تیرہ دلت قتل ہوتے ہیں،ان کے پانچ (۵)گھروں یا دوسری املاک کو جلایا جاتا ہے یا چھ(۶) لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے-بھارت میں ہر اٹھارہ (۱۸)منٹس کے بعد دلت معاشرے کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے- بھارتی انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق۲۰۰۲ءکے آخر تک تقریباً دلت معاشرے ہونے والے مظالم کے اکہتّر سو (۷۱۰۰) کیسسز کی پیروی پولیس اسٹیشن میں رہتی تھی- عدالتوں میں کل لائے گئے کیسسز میں سے اٹھہتّر (۷۸)فیصد جو کہ ایک لاکھ چھبیس ہزار(۱۲۶۰۰۰)ہیں سنوائی کے لیے رہتے تھے-اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اکیس(۲۱) فیصد کیسسز کو ایک سال حل کیا گیا- جِن میں سے صرف دو (۲)فیصد کسی نتائج پر ختم ہوئے- دو ہزار پانچ میں صورتِ حال اور بھی سنجیدہ ہوگئی اور سال کے آخر تک تقریباً چوبیس (۲۴)فیصد کیس پولیس کی فائلوں میں اور تقریباً اسّی (۸۰)فیصد کیسسز عدالت میں توجہ کے منتظر تھے-
دلت علاج کی محرومی کا شکار رہتے ہیں-اِن کو صحت کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں-دلت باقی انسانوں سے اوسطاً چار سال کم زندہ رہتے ہیں- دلت آبادی کے آدھے بچے پچپن میں غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں-دلت معاشرے میں عورتوں کا تیسرا حصہ خون کی کمی کا شکار رہتی ہیں- ہر سال پیدا ہونے والے سو (۱۰۰)بچوں میں اوسطً بارہ (۱۲)بچے پانچ سال سے پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں- یہی حال تعلیمی شعبے میں نظر آتا ہے جہاں ہر پانچ (۵)میں سے چار (۴)کو سکول سے نکال پھینکا جاتا ہے- بھارت کی شرح خواندگی جو کہ ۳/۲ ہے جبکہ اس کے برعکس صرف’’%۵-۰‘‘ دلت تعلیم حاصل کر پاتے ہیں- چھ سو (۶۰۰)میں سے ایک مرد اور بارہ سو میں سے صرف ایک دلت عورت پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری ملتی ہے- دلت معاشرے میں بے روزگاری کی شرح پانچ (۵)فیصد ہے جو کہ باقی معاشروں میں تین (۳)فیصد ہے-زیادہ تر یہ لوگ کسی کے لیے مزدور کی صورت میں مستقل سرمایہ یا زبردستی مزدور بنا لیے جاتے ہیں جِن کی تعداد تقریباً چوبیس (۲۴۰۰)ملین ہے-
بھارتی آئین کے آرٹیکل سترہ (۱۷)کے مطابق اچھوت پن کی مشق یا ترویج منع ہے-مگر حد افسوس! بھارتی عوام اپنے ہی آئین کو تسلیم نہیں کرتی اور اچھوت لوگوں پر مظالم کا نہ رکنے والے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے-دلت کمیونٹی اپنے حقوق کےلئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے جِس کی زندہ مثال ۱۹۹۸ء سے مسلح گروپ،جن میں اکثریت دلت ہیں،بہار کے چوون (۵۴)میں سے چھتیس (۳۶)اضلاع میں مظالم کے خلاف ہتھیار بند ہیں-آزادی کے بعد سے دلت کمیونٹی کی جدو جہد میں تیزی آئی ہے- گزشتہ سال گجرات میں دلت پر حملے کے جواب میں بڑا مظاہرہ کیا – گجرات میں دلت تحریک سب سے زیادہ زور پکڑ رہی ہے اور دلت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فقط ان کا آپس کا اتحاد ہی انہیں مساوی انسانی حقوق دے سکتا ہے اور اب یہ تحریک پورے ملک میں پھیل رہی ہے-
جدید غلامی آج کی دنیا کی سب سےبڑی مشکل ہے اور بھارت اِس میں سب سے آگے ہے-بھارت کے لیے یہ شرمندگی کی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ذات پات اور اچھوت کا رواج قائم ہے- جِس کی وجہ سے بھارت کا موجودہ سیاسی و معاشرتی نظام سخت مشکل کا شکار ہو گا-یہ ہے بھارت کاوہ بھیانک چہرہ جو وہ دنیا میں نام نہاد جمہوری ریاست کا نعرہ لگا کر چھپاتا ہے- بھارت کو پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزر یوں کے جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگانے سے پہلے اپنے اِس حیوانی چہرہ کو دیکھنا چاہیے- اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو بھارتی حکمرانوں کو اس دن کے متعلق سوچنا چاہئے کہ جب بھارت میں دلت تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گی اور اس غیر انسانی نظام سے نجات پا کر آزادی حاصل کر لیں گے اور دنیا بھارت کےاپنے اندر سے اُٹھنے والی تحریکوں کے ہاتھوں اس کے ٹکڑے ہوتے دیکھے گی-
بھارت دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں گائے کی پوجا کی جاتی ہے اُسے ماتا کہا جاتا ہے لیکن انسانوں کے ان تمام گروہوں کو جو کہ بڑی ذات سے تعلق نہیں رکھتے ان کو جانوروں سے کم تر اور گھٹیا تصور کیا جاتا ہے- عالمی دنیا نے انسانوں کی ایسی ہی تذلیل پر قوانین بنائے گو کہ دنیا میں کئی ممالک میں نسلی امتیاز کسی حد تک موجود ہے-لیکن بھارت کے اندر رنگ و نسل کا امتیاز اب ۱۹۴۰ءسے کہیں زیادہ ہو گیا جب قائداعظم اور علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہم)نے یہ فرمایا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور وہ ایک جگہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتیں اور اس وقت جس بات کو بنیاد بنایا گیا وہ یہ تھی کہ’’ ان کا کھانا ، پینا ، رہنا ، سہنا، ان کی عبادت ہم سے جدا ہے اور اسی بنیاد پر مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے‘‘-
لیکن آج کے بھار ت میں بڑی ذات والے ہندوں کا کم ذات والے ہندو سے کھانا،پینا جدا ہی نہیں بلکہ ان کے لیے وہ کھانا کھانے کی اجازت ہی نہیں جو بڑی ذات والا کھاتا ہے-جب پاکستان بنا تو اس وقت سے باقی اقلیتوں نے بھی اس برہمن ہندوستان سے جدا ہونے کی کوشش شروع کی لیکن ان کوششوں کو ہندووں کی بڑی ذاتیں فریبی نعروں اور فوجی طاقت سے کچلتی رہی لیکن بد قسمتی سے اقلیتی دلت کامداوا نہ ہو سکا اور اس کے مداوے کی کوئی امید بھی ہندو برہمن سے نہیں کی جا سکتی -لیکن اسی طرح کا معاملہ ساؤ تھ افریقہ میں بھی تھا لیکن وہ ہندستان سے تھوڑا مختلف اس وجہ سے تھا کہ وہاں دو نسلیں رنگ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بر سرے پیکار رہیں لیکن ہندوستان میں دو ذاتیں (اونچی ذات اور نیچی ذات) ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ دلت اسی ایک ہی ملک میں جسکا نظام ہی ان کو قبول نہ کرتا ہو اسی غلامی میں مزید کئی سال گزاریں،اس لئے آج دلت کمیونٹی کے پڑھے لکھے جوان دوہرے سلوک کے خلاف دوش تا کمر زرہ اور ہتھیاروں سے سج گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارتی ظالمانہ نظام سے مکمل آزادی تک وہ جد و جہد جاری رکھیں گے-لندن،نیو یارک اورجنیوا سمیت ہر جگہ دلت مرد و خواتین بھارت کیخلاف آواز بلند کر رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں مزید رسوائی قبول نہیں کریں گے-دلتوں کی نئی نسل کے جوشِ انتقام سے لگتا ہے کہ بھارت کا ذات پات کا نظام ہی بھارت کی مزید تقسیم کا موجب بنے گا اور عنقریب بھارت مزید تقسیم ہو گا اور دلت ایک علیحدہ ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے-