توہم پرستی اور جہالت کا شاخسانہ

کالم :- منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی
سرگودھا کی ایک درگاہ میں گدی نشین پیر کے ہاتھوں بیس افراد کے لرزہ خیز قتل کی واردت پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی کا ایک اور ثبوت ہے اس حادثہ سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اس سرزمین میں اب مذہب بس نام ہی کا باقی رہ گیا ہے عملی طور پر یہاں جہالت اور توہم پرستی کا راج لگتا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق درگاہ کے گدی نشین پیر عبدلواحید نے اور اس کے پجاریوں نے انتہائی ظالمانہ طریق سے بیس افراد کو قتل کردیا ہے حکومت پنجاب کو ابتدائی رپورٹ میں سرگودھا کی انتظامیہ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ واقعہ صریحا توہم پرستی اور جہالت کا نتیجہ ہے اور اس کا تعلق کسی قسم کی ذاتی دشمنی یا کسی قسم کے تنازعے سے نہیں ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دربار پر آنے والے ہرشخص کو دربار کے آخری حصہ میں لیجایا جاتا تھا وہاں اس پر تشدد کیا جاتا بیہوش کیا جاتا سر پر ڈنڈے مارے جاتے اور جسم کے مختلف حصوں پر خنجر کے وار کئے جاتے تھے جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہو جاتا اور پھر اس کی نعش کو دوسرے کمرے میں منتقل کردیا جاتا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مزکورہ دربار محکمہ اوقاف کی تحویل میں نہ تھا اور نہ اس کا ریکارڈ ملتا ہے اور یہ دوسال قبل بنایا گیا تھا اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق سجادہ نشین گناہ جھاڑنے کے لئے مریدوں سے ڈنڈے مرواتا اور ان کو چپ رہنے کے لئے کہتا سادہ لوح عقیت مند سجادہ نشین کی عقیدت میں ڈنڈے کھاتے رہتے اور معصوم لوگ موت سے ہمکنار ہوتے رہے اندھے اعتقاد کا شکار مرید ایک دوسرے کو خنجروں اورتیز دھار آلات سے ایک دوسرے کو مارتے تھے اس المناک اور شرمناک کہانی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قاتل پیر ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے اور اہم سرکاری عہدوں پر کام کرتا رہا ہے اس دوران اس کی درگاہ پر شراب بھی سپلائی کی جاتی تھی اور اس کے مریدوں میں پڑھے لکھوں کی تعداد زیادہ بتائی گئی ہے اس واقعہ نے پاکستان کے اندر بڑھتی جہالت توہم پرستی اور شرکبازی کو ایک بار پھر ننگا کیا ہے لیکن ماضی کی طرح اس واقعہ پر چند ہفتوں بعد مٹی ڈال دی جائے گی من حیث القوم یہ واقعہ پوری ریاست اور قوم کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے مذہب کو مولوی کے حوالے کرنے کا عبرتناک انجام ہے اور سیاست اور مذہب دونوں کے مزے لوٹنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے
پاکستان کا معاشرہ اس وقت اپنے اخلاقی انحطاط کی آخری حدوں ہو چھو رہا ہے آئے دن اخبارات میں ایسی ایسی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور حقیقت میں ہاتھ خود بخود کانوں کو چھونے لگتے ہیں اور بوڑھے لوگ تو توبہ توبہ کرنے لگتے ہیں توہم پرستی ، پیری مریدی کی آڑ میں شرک پرستی کاہر طرف دور دورہ ہے کہیں مذہب کے نام پر قتل اور کہیں فرقہ کے نام فساد
حالی نے اپنی شہرہ آفاق مسدس حالی میں مسلمانوں کی اخلاقی حالت کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کی عملی تفسیر آج کا مسلمان ہے جو پاکستان میں مقیم ہے اگر ایمانداری اور سچائی کے ساتھ مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کے موجودہ کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کو دائرہ اسلام سے نکالنے کے لئے کسی اسمبلی یا قرار دار کی ضرورت نہیں ہے ان کے اعمال صالح ہی ان کے لئے کافی ہیں مکمل اور کامل طور پر دائرہ سے باہر ہی نہیں بلکہ کوسوں دور دکھائے دیتے ہیں اسلامی تاریخ کی کتب میں ظہور اسلام سے قبل معاشرے کی جہالت اور توہم پرستی کی جو جو نشانیاں بیان کی گئیں ہیں وہ آج پاکستان کے معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہیں جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے اور آج اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور فساد پھیلایا جاتا ہے قتل کیا جاتا ہے قرآن سے شادی کی جاتی ہے ، تہمت لگائی جاتی ہے بدزنی کی جاتی ہے منافقت کا بول بالا ہے عدل و انصاف کا فقدان ہے عورتوں کو زندہ جلایا جاتا ہے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا ہے یتیموں کا مال ہڑپ کیا جاتا ہے زناکاری اور بچوں سے بدفعلی کے شرمناک قصے روز کا معمول بن چکے ہیں گھروں کے اندر اور باہر عورت کی عزت محفوظ نہ رہی ہے ماں اور باپ کو اس کی اولادیں اور اولادوں کو مان باپ قتل کردیتے ہیں رشوت خوری سر عام ہے کہا جاتا ہے کہ لوگ تنخواہ لینا نہیں بلکہ رشوت لینا پسند کرتے ہیں مذہب کے نام پر خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ایک جنگل کے قانون سا گماں ہے جہاں ایک طاقتور ایک کمزور کو ہڑپ کر جاتا ہے عدالتیں انصاف کرنا چھوڑ چکی ہیں چیزوں میں ملاوٹ کی جاتی ہے کم تولا جاتا ہے وراثت میں سے عورتوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کیا جاتا ہے معمولی معمولی بات پر ایک مسلمان دوسرے کا قتل کردیتا ہے بیواؤں کے ساتھ ظلم و ستم کے کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے اور پاکستانی اخبارات ان سب حالات و واقعات کی گواہی دیتے ہیں کہ آج کا مسلمان الطاف حسین حالی کی مسدس حالی کی عملی تصویر بن چکے ہیں اسلام صرف نام کا ہی باقی رہ گیا ہے اکیسویں صدی کے بھی سولہ برس گزر چکے لیکن ہمارا تنزلی اور پستی کی طرف کا سفر رکنے میں نہیں آرہا مولوی اور ملائیت نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ منبر رسول کے وارث خود ہی تمام برائیوں کا منبع بن چکے ہیں اپنے مقام کو بھول چکے ہیں سیاست بازی کے شوق میں شرمناک خبروں کی زینت بن رہے ہیں کسی کو شلوار کے نام پر شہرت ملتی ہے اور کوئی مفتی قندیل بلوچ کے سکینڈل میں عالمی شہرت پاتا ہے اور کوئی شراب کی بوتلوں کے ساتھ گرفتار ہوتا ہے ۔سوشل میڈیا پراس وقت درجنوں کے ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں خود ساختہ پیر شرم ناک حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں خودساختہ پیروں کے آگے سجدے کئے جاتے ہیں مردو زن کی موجودگی میں جوان عورتوں کو گلے لگا یا جاتا ہے اور عورتیں بھی پیر کے گلے کا ہار بنی ہوتی ہیں اور یہ دم درود کے نام پر گلے بازی ہوتی ہے نہ جانے کونسا جن نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس حالت میں تو بوتل میں قید جن بھی باہر نکل آتا ہے
کچھ دیر کے لئے ظہورسلام سے قبل کے دور کے مناظر کو یاد کرتے ہیں جب ہر طرف جہالت و ضلالت کا دور دورہ تھا ، توہم پرستی کا راج تھا شرک کی سیاہ چادر نے پورے معاشرے کو لپیٹ رکھا تھا شیطانیت ہر طرف رقص کرتی دکھائی دیتی تھی بیٹی کی پیدائش منحوس تصور کی جاتی تھی اور پیدا ہوتے ہی اس کو زندہ دفن کر دیا جاتھا تھا عورتوں کو زندہ جلایا جاتا تھا زنا کاری عام تھی باپ کے مرنے پر بیٹا ماں سے شادی کر لیتا تھا ، خونی رشتوں کا کوئی تقدس نہ تھا دجل فریب جھوٹ منافقت عام تھی اور بتوں کی پوجا کی جاتی تھی آتش پرستی ، سورج پرستی عام تھی غرور و تکبر اور خاندانی برتری نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا تھا عورت کا کوئی پرسان حال نہ تھا وہ سسک رہی تھی وہ تڑپ رہی تھی کبھی ایک مرد کے پاس اور کبھی دوسرے مرد کے پاس ، اس کا نہ کوئی مقام تھا اور نہ کوئی رتبہ ، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی طاقتورہی کی عزت ہوتی تھی طاقتور قبیلہ ہی عزت دار کہلاتا تھا عدل و انصاف نام کیا کوئی تصور موجود نہ تھا ان سب برائیوں کو دیکھیں اور آج اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو تو کوئی فرق اگر نظر آتاہے تو بس یہی کہ ظہور اسلام سے یہ سب کچھ کرنے والوں کا کوئی مذہب نہ تھا لیکن آج کرنے والے ایک دین کے پیروکار ہیں-