کیاایسا ممکن ھے ؟؟؟
کالم :- کوثر خان کامران
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نےکہا ہے کہ حکومت خواتین کی زندگی کےہرشعبےمیں شرکت یقینی بنانےکے لیےپُرعزم ہے۔ پاکستان میں خواتین کو کام کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پیغام میں کہا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق 2030 کے ایجنڈے پر موثر عمل درآمد کے لئے کام کررہےہیں۔ صنفی بنیاد پر تشدد اور خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کےخاتمےکیلئے بھی پُرعزم ہیں۔وہیں دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ سرچ انجن گوگل نے بھی اپنا نیا ڈوڈل جاری کر دیا ھے
آج پوری دنیا میں جہاں مختلف سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کی جا رھی ھیں خواتین کے حقوق کے بارہ میں تقاریر کے زریعے نئے عہد دھرائے جا رھے ھیُں۔ کہیں گھروں میں آج کا دن خواتین کے لئے سہولت و آسانیوں کا دن بنانے کی باتیں ھو رھی ھیں۔ کہیں اپنے اپنے مفاد کی خاطر بڑھ چڑھ کر جلوس نکالے جا رھی ہیں۔ کہیں بلند و بانٹ دعوی کئے جا رھے ھیُں۔ خواتین کے عورت کے لئے۔
ایک عورت جو بچپن سے ہی باپ اور بھائیوں کے زیرِ سایہ پرورش پاتی ھے۔ جسکا نام مرد کے لئے بدل جاتا ھے۔ اسکا گھر فیمیلی رشتہ دار سب کچھ بدل جاتا ہے محض ایک مرد کا ساتھ پانے کے لئے۔ نئے ماحول نئے گھر کو اپنا گھر بناتی ھے حاملہ ٹھہرتی ہے ھرھر تکلیف اور اذیت برداشت کرتی ہے اپنی خوبصورتی علم عقل شعور جسمانی ساخت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے زندگی اور موت کی جنگ لڑتی ھے اک نہی زندگی کو جنم دینے کےلئے اور یوں دنیا میں مرد کا نام اور نسل جاری رکھتی ہے۔ جب تک کہ فرشتہِ اجل نہ آ نا جائے ھر روز ھر کام کرتی ھے۔ کھانا پکانا صفائی ستھرائی سسرال میں رہتے ہوئے سسرالی رشتہ داروں اور ساس سسر کی خدمت۔ مشکل وقت میں شوھر کی دلجوئی۔ اس کی ھر موڑ پہ ھمت افزائی اس کے آرام و طعام کا خیال رکھتی ھے۔ تمام میکہ اور سسرالی رشتہ داروں کے مابین تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کرتی ھے۔
کبھی سوچا بھی ھے اس سب کے دوران اسکی اپنی شخصیت اپنی خواہشات اپنے شوق اپنی چاھتیں اپنی خوبصورتی، اپنے دل قدم آف کی آبیاری وہ سب بھول جاتی ھے۔ محض ایک کامیاب ماں کہلوانے کے لئے۔ ایک بہترین دوست بننے کے لئے۔ خود کو فرمانبردار بیٹی ثابت کرنے لئے۔ ایک مخلص بہن ھونے کے ناطے ھرھر رشتہ کی کسوٹی پہ پورا اترنے کی جہد میں۔ ھرھر جگہ خود کو اپنے ھاتھوں مارتی ھے خود سے وابسطہ ھر تعلق کو زندہ رکھنے کےلئے۔
اچھا!! کبھی سوچا ھے!!!! کہ اگر عورت نہیں ھوتی تو یہ گلستانِ جہان کیسا ہوتا؟؟؟
گھروں پہ مکمل سکوت طاری ھوتا سکول و کالج تنہا ہوتے۔ راستے اداس و ویران ہوتے۔ شاپنگ سینٹر خالی ہوتے۔ مرد کا ھر کاروبار مندا ہوتا۔ نہ تحفے تحائف لئے جاتے نہ دلپزیر گفتگو ھوتی۔ نہ مزے مزے کے کھانے ھوتے اور تو اور اسقدر رومانوی اور شاندار ڈرامے بھی نہ ہوتے۔ اور نہ ھیُ جوڑے بنتے۔
پر ایک سوال ہے۔ کہ کیا خواتین کا عالمی دن صرف ایک دن پہ ھیُ منحصر ھونا یا صرف زبانی دعوی و وعدے کافی ھے۔ کیا کبھی باتوں سے ھٹ کے عملی زندگی میں بھی ایسی مثالیں ملیں گی۔ کیا اپنے اپنے گھروں میں اپنے سے منسوب خواتین کے لئے بھی وھی کچھ پسند کیا جائے گا جو کہ مرد خوداپنے لئے چاھتے ہیں۔ جائیداد میں سے شرعی حصہ اس کی سوچ کا احترام اسکی پسند و ناپسند کی وقعت اسکی زبان و بیاں کو حقِ آزادی۔ کیا یہ سب کچھ ممکن ھو گا ؟ یہی سوال ھے آج کے دن کے حوالے سے۔
کیا ہی خوب ھو کہ اس دن کی اھمیت کی بناء پہ سب خواتین ایک دوسری کے حق میں ھموار ھو جائیں۔ معاشرہ انکا حق بروقت ادا کرنا شروع کر دے ان پہ اپنی مرضی تھوپنے کی بجائے انھیں خود اپنی زندگی جینے کا حق دے دے۔ انھیں اس معاشرے کا ایک فعال ممبر کی حیثیت سے قبول کر لیا جائے جاب کی جگہ پہ مساوی حقوق فراھم کئے جائیں ھر جگہ ان کے لئے عزت و احترام انکی جسمانی کشش کی بجائے انکی اھلیت قرار دیا جائے انھیں کھلونا سمجھ کر دل بہلانے کی بجائے سوچ و ادراک میں برابر سمجھا جائے
کیا یہ سب کچھ ناممکن ھے ؟؟؟
کوثر خان کامران لنڈن
عورت ھوں عورت ھی سی عزت چاھتی ھوں
محبت سے گُندھا وجود محبت چاھتی ھوں
جیو خود بھی اے ناخداو اور جینے دو مجھے
اپنا گھر کہہ سکوں ایسی چھت چاھتی ھوں
زندگی میری ھے مگر اِسے بِتا رھے ھو تم
گزاروں میں بھی اپنے روز وشب چاھتی ھوں
طاری ھیں ظلم و ستم مجھ پہ بلاوجہ ھی
زندہ ھوں زندہ رھنا بہر سبب چاھتی ھوں
قفس لگا رکھے ھیں اپنی اَناوں کے سب نے
صدیوں سے بند زباں کھولنا اب چاھتی ھوں
کچھ تو ھو میرے دامنِ تار تار میں کوثر
احساسِ سود و زیاں کی ملکیت چاھتی ھوں
منزل کا تعین کرے دیکھ کے جیسے بیٹی
عصرِ حاضر کی ایسی شخصیت چاھتی ھوں
ریت بدل جائے , ہار میں جیت بدل جائے
انقلاب یاں ھو تہلکہ خیز قیامت چاھتی ھوں
پہچانی جاؤں اپنے نام سے اپنے کام سے
اپنے لیے خود میں اپنی نسبت چاھتی ھوں
جیون بھرھو مقدر میرا خوشی و مسرت
غم کے احساس سے فرصت چاھتی ھوں
ھر گلی ،ھر دوار ھو دارالاماں میرا
راہِ زندگانی پہ بے خوف لطف چاھتی ھوں
جس کا سہارا لے کر بجھائی جاتی ھے قندیل
بہنوں کی نظر میں وھی غیرت چاھتی ھوں
ھم سفر بھی خود ٹھہروں ھمراھی بھی خود ھی
عجب سوچ ھے یہ رستہ بھی عجب چاھتی ھوں
میرے ھونے کی نشانی نہ مانگے اب آدم کوئی
ایسی سچائی اور یہی حقیقت چاھتی ھوں
رسموں اور رواجوں کی بھاری پوٹلیاں
کندھوں پہ مرد کے دھرنا سب چاھتی ھوں۔