ایڈیٹرکاانتخاب

کہاں گئے وہ جج جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے، چیف جسٹس

کوئٹہ ( نیوزوی او سی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا، انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار جج ہیں، لوگوں کو انصاف ملنا چاہیے، کہاں گئے وہ جج جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے، ہم مقننہ نہیں ہیں ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ، حکومت بھی تعاون نہیں کرتی ، کئی مواقع پر 30، 40 برس لوگ مقدمے بازی میں پھنسے رہتے ہیں، یقین ہے میرے لوگ کرپٹ نہیں، ججز کو مراعات اور سہولیات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے کوئی احسان نہیں، ہم ریاست کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ ملازم ہیں۔ ہماری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولیات دیگر گریڈ کے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے بلوچستان ہائیکورٹ میں ماتحت عدلیہ کے ججز میں نئی گاڑیوں کی چابیوں کی تقسیم کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز جوڈیشل سیٹ اپ کی بنیاد اور ملک کے اہم ترین ستون کی بنیاد ہیں یہاں سے لوگوں کو انصاف ملنا ہے ، میں کھل کر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں شدت سے اس چیز کو محسوس کر رہا ہوں کہ ہم اپنی اہلیت کو معیار کےساتھ استعمال نہیں کرتے ، مجھے بلوچستان سے کم شکایت ہے مگر پنجاب اور دیگر جگہوں پر مجھے نہیں پتہ کس طرح ٹرائل میں 15سال لگتے ہیں اور کیوں لگائے جاتے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کہا کہ مقدمہ بازی معاشرے کی بیماری ہے جیسے جسم کی بیماری ہوتی ہے، انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے بڑا ٹول ایک ڈاکٹر کا ہے جس کو مسیحا کہتے ہیں یہ معاشرے کی بیماری ہے اور اس کا سب سے بڑا ٹول ایک جج ہے۔ کیا آپ سب دوست اپنے طور پر اور اپنے تئیں یہ محسوس کرتے ہیں کہ معاشرے میں اس لعنت اور بیماری کو اور مقدمہ بازی جیسی بیماری کو ختم کرنے کے لئے کیا یہ ٹول بہترین طریقہ سے تیار ہے اور استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں برملا عرض کروں گا کہ ہم لوگوں کو یہی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم انصاف کر رہے ہیں لیکن مجھے اس جذبہ اور عبادت کے ساتھ انصاف نظر نہیں آ رہا۔ ججز کو یہ کرنا پڑے گا جس کوشش کو اور جہاد کو ہم نے شروع کیا ہے۔ اس میں ججز کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر نہیں کرینگے تو پھر آپ اپنے بچوں کے گنہگار ہیں۔ اگر آپ انصاف دے کر نہیں جائیں گے اور اگر آپ انصاف کی بنیاد اور ستونوں کو مضبوط نہیں فرمائیں گے ۔ کیا آپ بے سکونی میں اور قرض کی ادائیگی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر سرخرو ہو سکیں گے یہ ممکن نہیں ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم مقننہ نہیں ہیں ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم 1872ء کے 1884ء کے قوانین اینگلو سیکسن لاز جو یہاں پر رائج ہیں ان کو تبدیل کر سکیں ہم نے انہی قوانین کو نافذ کرنا ہے۔اس پروسیجرل کورٹ کو ہم نے فالو کرنا ہے جو 1908ء میں بنایا گیا تھا۔لیکن اس قانون پر ہی عمل کر لیں تو کم از کم فیصلے جلد ہو پائیں گے ۔ کتنے کتنے سال لوگوں کو ٹرائل کے دوران انتظار کرنا پڑتا ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ کئی مواقع پر تیس تیس اور چالیس چالیس سال لوگ مقدمہ بازی میں پھنسے رہتے ہیں کم از کم ان میں ایک تو مظلوم ہے جس کا استحصال ہو رہا ہے اس کا کیا قصور ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے جس کا حق مارا گیا ہے اور اپنے حق کے حصول کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور اسے کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے کون ذمہ دار ہے میں ذمہ دار ہوں بطور قاضی القضاد اور آپ ذمہ دار ہیں بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ ، ضلع کے سیشن جج ہونے کے ناطے آپ ذمہ دار ہیں ۔ آپ سول جج اور جوڈیشل آفیسر ہونے کے لحاظ سے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے ایک ہی درخواست کرتا ہوں، قانون سیکھیے اور قانون جانیے کیونکہ جو ہم سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں بیٹھ کر ججز دیکھ رہے کہ نیچے اگر فیصلہ درست ہو گا تو وہ فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی قائم رہے گا لیکن اس فیصلہ میں سقم اور کمی ہے اور قانونی کمی ہے کیونکہ آپ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون آپ کو نہیں آتا اور اس میں قانون کے حوالے سے کوئی کمی اور سقم رہ گیا ہے تو پھر اس کی کسی پر ذمہ داری نہیں جاتی کسی ایگزیکٹو پر ذمہ دار ی نہیں جاتی اور اس میں کسی چیز کا تعلق نہیں یہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نے لوگوں کو قانون کے مطابق انصاف مہیا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں مقدمہ میں اتنا وقت لگتا ہے کہ چار، چار مقدمات ٹرائل میں پھنسے رہتے ہیں، کبھی کسی نے دیکھا کہ اس مقدمہ کا جلد فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بلوچستان سے کم شکایت ہے مگر پنجاب اور دیگر جگہوں پر مجھے نہیں پتہ کس طرح ٹرائل میں 15سال لگتے ہیں اور کیوں لگائے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ہم ایکسپلائٹ ہوتے ہیں۔ آپ بھی ایکسپلائٹ ہوتے ہیں۔ دوست ایکسپلائٹ کرتے ہیں آ کر کمرے میں گھس جاتے ہیں۔ سلام دعا کرلیتے ہیں باہر جا کر کسی کو بتائیںکہ جی میں نے سفارش کر دی کام ہوجائیگا، اس کنڈکٹ اور فرائض میں جو آپ نے فرض ادا کرنا ہے یہ بھی احتیاط کرنی ہے آپ ایکسپلائٹ نہ ہوں ۔ میں بطور چیف جسٹس ایک سول جج ، ایک جوڈیشل مجسٹریٹ اور ایک چیف جسٹس آف پاکستان کے عدالتی اختیار میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ میری عدلیہ اور میرے دوست کرپٹ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے تحت یکساں سلوک کیا جائے اور یہی آرٹیکل چارکا مینڈیٹ ہے اس کو بار بار پڑھیں ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ ہماری عدالتی ریفارمز کا آغاز ہے جہاں پر ہم نے قانون کو سب سے پہلے سمجھنا ہے سیکھنا ہے اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور کوشش کرنی ہے جلد کئے جائیں اور قانون کی غلطی بالکل نہ کریں ۔ شواہد کو غور سے پڑھیں ۔ قانون شہادت کوذرا غور سے دیکھیں ۔ قانون شہادت پر عبور ہونا چاہیے آپ کو سی پی سی پر عبور حاصل ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہ اگر ریاست کی طرف سے آپ کو کتابیں اور بینچ بکس نہیں ملیں تو آج سے اپنے طور پر کوشش کریں ہر سیشن جج ضلع کی سطح پر روز کی پری پوزیشنز پر بیٹھ کر مشاورت کرے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے حاصل کریں ہائی کورٹ کے فیصلے جو آپ کے لیے بینچ بک کا کردار ادا کر سکے تاکہ آپ قانون کے مطابق صحیح فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو مراعات اور سہولت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یہ کوئی احسان نہیں ہے اس سے بہتر حالات ہمارے ہونے چاہئیں مگر ایک چیز بتا دوں، ہم ریاست کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ ملازم ہیں۔ ہماری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولیات دیگر گریڈ کے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے حوالے سے اسلام کے مقابلہ میں لوگوں کا کوئی بنایا ہوا قانون انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا اگر انصاف کرینگے تو میرے جیسا چھوٹے قد کا آدمی بھی خود کو لمبا محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم قانون تبدیل نہیں کر سکتے ہم کوشش کر رہے ہیں بہت جلد ہم اپنے پراسیس سے جو قانون پہلے نافذ ہے اسے تھوڑا آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ججز کو سہولت ہو گی کہ وہ جلد فیصلہ کر سکیں۔ ججز کی ایک ڈیوٹی ہے آنے والی نسل کے لئے تو لوگ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ہیں۔ فاقے کاٹتے ہیں کہ میرے بچوں کو اس کے یہ فوائد ملیں گے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اس طرح کا کردار اپنائیں جس سے آنے والی نسل کو کم از کم پاکستان پر یقین ہو اور عدلیہ پر یقین ہوں کہ یہ ایک منصف ادارہ ہے اور کسی حق کی خلاف ورزی ہے تو اس کو اس ادارے سے انصاف اور صرف انصاف ملے گا۔ لہذا ججز کوانصاف کے ستون کو مضبوط اور لوگوں کو جلد انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی موجودگی میں تمام لمحات خوبصورت ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ عدالتی اصلاحات پر آپ ہمیں ہدایات دیں گے ہماری کوشش ہے کہ پالیسی پر عمل پیرا ہوکر عوام کو انصاف فراہم کریں، صوبے کی عدلیہ کی کارکردگی سے میں مطمئن ہوں اور عدالتی عملہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیںاس موقع پر تقریب میں15 سینئر سول ججز، 30 سول ججز میں 5 قاضی،3 فیملی ججز اور 18 مجلس شوریٰ کے ممبران میں گاڑیوں کی چابیاں تقسیم کی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button