اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکٹ عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض آباد میں دھرنا دینے والوں توہین ِ مذہب کی اور ریاست نے ان کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ ریاست اور دھرنے والوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ غیرآئینی ہے۔ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچ نے کہا کہ ہمیں توقع تھی کہ فوج اس معاہدے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام استعمال کیے جانے کی تحقیقات کرے گی۔
عدالت نے معاہدے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو دو آپشن دیئے کہ آیا معاہدے کے قانونی ہونے کا جائزہ لینے کے لیے یہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا جائے یاپھر حکومت کے اعلیٰ حکام کو، جس میں فوج بھی شامل ہو گی۔ ان میں سے اٹارنی جنرل نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا۔ دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ”مجھے حیرت ہے کہ ریاست نے مظاہرین کے خلاف درج دہشت گردی کے مقدمات کیسے ختم کر دیئے جنہوں نے دارالحکومت کو مفلوج کر دیا اور بے رحمانہ طریقے سے پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ کیا پولیس ریاست کا حصہ نہیں ہے؟ ریاست کو چاہیے کہ مظاہرے میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں کو چار مہینے کی تنخواہ دے۔“
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دوران سماعت یہ بھی واضح کر دیا کہ عدالت کسی صورت ریاست اور مظاہرین کے مابین ہونے والے معاہدے کی توثیق نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”حکومت نے مظاہرین کے یک طرفہ مطالبات تسلیم کر لیے اوران مذاکرات میں فوج نے ثالث کا کردار ادا کیا اور معاہدہ کروایا۔حکومتی حکام، بشمول ثالث (آرمی چیف)کو اس معاہدے پر غور کرنا چاہیے۔“ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی کی جان محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو یہ حکم بھی دیاکہ مساجد اور مدرسوں سے فتاویٰ کے اجراءکو روکا جائے جن میں کسی کو بھی غیرمسلم قرار دے دیا جاتا ہے۔مقدمے کی سماعت 12جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔