رنگ برنگ

دور کہیں ویرانوں میں ھم پھول کھلانے نکلے تھے

نیلم کماری
حیدر آباد پاکستان

دور کہیں ویرانوں میں ھم پھول کھلانے نکلے تھے
یا پھر ھم دیوانے تھے اور دھول اڑانے نکلے تھے
سال ھوئے بےحال ھوئے اور نیند خفا ھے آنکھوں سے
جانے کون گھڑی تھی جب ھم خواب سجانے نکلے تھے

ایک نظر کیا پائی ارماں ایک سے ایک ھزار ھوئے
اور ھم ایک نظر کی خاطر جان گنوانے نکلے تھے

امریتا، پروین کے مصرعے شیریں اور کسیلے سے
ھم بھی اپنے شعروں میں وہ لاگ لگانے نکلے تھے

دور افق پر جلتے بجھتے تارے دیکھ کے لگتا ھے
جگنو ھیں جو اندھیاروں کا جی بہلانے نکلے تھے

عشق میں کیونکر بھول ھوئی کہ ھم کو ھار قبول ھوئی
ھم تو اس رستے پر اپنی جان گنوانے نکلے تھے

آج قضا افسانہ ھے یا باقی عمر حقیقت تھی
یا پھر یہی حقیقت اور باقی افسانے نکلے تھے………
(نیلم)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button