1999ء میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے سازش کہاں اورکیسے تیار ہوئی؟ ‘
لاہور(ایس چودھری )12 اکتوبر1999 کے روز میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے اسباب یہ بتائے جاتے ہیں کہ انہوں نے حاضر سروس آرمی چیف پرویز مشرف کا طیارہ سری لنکا سے واپس آتے ہوئے پاکستان میں اترنے سے روکوادیا اور اسکو انڈیا کی جانب لے جانے کی سازش کی جس پر فوج نے ردعمل میں نوازشریف کا تختہ الٹ کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور جیل میں بند کردیا تاہم بیرونی مداخلت اور سمجھوتے کے تحت شریف برادران کو سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا ۔
جمہوریت پر شب خون کی اس کہانی کے پیچھے سازش نے کب جنم لیا اور اسکی تیاریاں کس فریق کی جانب سے ہورہی تھی ،ان کے بارے زیادہ تر حقائق وہی جانتے ہیں جو ان سازشوں میں شریک تھے ۔سابق لیفٹنٹ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’ یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں اپنی ضمیر کی آواز پر وہ سب کچھ لکھ ڈالا ہے جس کا تانا بانا بارہ اکتوبر سے پہلے بُنا جاچکا تھا ۔وہ بھی جنرل مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے جس نے نواز شریف کا تختہ الٹا ۔اس دور میں میاں نواز شریف اور جنرل مشرف کے درمیان کارگل ایشوز پر شدید اختلافات سامنے آگئے تھے جس کے بعدمیاں نوازشریف جنرل مشرف کو ہٹا کر نیا آرمی چیف لانا چاہتے تھے تو دوسری جانب جنرل مشرف نے بھی نوازشریف کا دھڑن تختہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے معتبر ساتھیوں کو اعتماد میں لے لیا تھا ۔
ان حالات وا قعات کے بارے میں جنرل شاہد عزیز نے لکھا ہے کہ ملک کے بدلتے حالات پر ان کی میٹنگ جاری تھیں جن میں اہم مسائل پر بحث ہورہی تھی ۔وہ لکھتے ہیں ’’ فوج کے کچھ سینئر افسران کو پارسل کے ذریعے تحفے کے طور پر کچھ لوگوں نے چوڑیاں بھیجی تھیں۔ یہ خبریں بھی اخبار میں آتی رہیں۔ کیا ان سب کے پیچھے بھی کسی کا ہاتھ تھا ؟ میں کہہ نہیں سکتا۔ آج اتنا کچھ دیکھ چکا ہوں کہ کسی بات کا اعتبار کرنے سے ڈرتا ہوں۔
پہلی ملاقات میں جنرل عزیز سے خوشگوار ماحول میں اسی قسم کے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ کہنے لگے ، حکومت فوج کو پولٹیسائز (Pollticise) کرنا چاہتی ہے، یعنی اس کو بھی سیاسی رنگ میں رنگنا چاہتی ہے ، تاکہ جو بھی فیصلے حکومت کرے فوج اس کا ساتھ دے ۔ لوٹ مار پر چپ رہے۔ جو افسرسیاسی حکمران سے ذاتی وفاداری رکھتے ہوں ، صرف وہی ترقی پاسکیں ، قابلیت کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ ایک چیف نکال کر پھینک چکے ہیں ، اب دوسرے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ اس طرح تو یہ فوج کو تباہ کر کے چھوڑیں گے ۔ ایک ہی ادارہ ان کے ہاتھوں سے بچا ہے ۔ اس کا بھی ستیاناس کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر ملک کو تباہی سے بچانے والا کون رہ جائے گا؟ ۔میں نے بھی ان باتوں کو مانا کہ بالکل یہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ میں ISIمیں رہتے ہوئے بھی کافی کچھ دیکھ چکا تھا اور سن چکا تھا ۔ سب کے ہی تاثرات ایسے تھے ۔ سفارتی حلقوں سے لے کر افواج کے ارکان ، سول سوسائٹی ، غریب عوام ، جن سے بھی ملتا ، انہیں حکومت کے خلاف نفرتوں سے بھرا ہوا ہی پاتا ۔
ایک آدھ دن اپنے کام میں مشغول رہا ، پھر CGSسے ایک ملاقات اور ہوئی جس میں DGملٹری انٹیلی جنس (MI)میجر جنرل احسان الحق بھی موجود تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین ، نواز شریف صاحب سے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں کہ جنرل مشرف کو ہٹا کر خود چیف بن جائیں۔ نواز شریف کا ارادہ پختہ ہوتا نظر آرہا ہے اور یہ فوج کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں ۔ کچھ دن ملاقاتوں میں DGMIاسی قسم کی خبریں لاتے رہے اور ہم ان پر تبصرے کرتے رہے ۔
جو تفصیلات بعد میں علم میں آئیں ، ان سے یہی لگتا ہے کہ جنرل ضیاالدین ، نواز شریف صاحب سے فوج کے سربراہ کے خلاف ، ذاتی مفاد میں ، گٹھ جوڑ کر رہے تھے ۔ ان کا کردار یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس صورت حال کو ڈی فیوز (defuse) کرنے کی کوشش کرتے ۔ وہی ایک شخص تھا جو ان دونوں کی کدورتیں ختم کرسکتا تھا ۔ادھر وہ وزیراعظم کو بھڑکارہے تھے اور اِدھر DGMIچیف کو خبریں پہنچا رہے تھے ۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے خائف تھے ۔
پھر ایک شام جنرل مشرف نے ہم سب کو اپنے گھر بلایا ۔کچھ دیر سیاسی حالات پر اور نواز شریف اور جنرل ضیا الدین کے بارے میں اس ہی قسم کی باتیں کیں ، جو جنرل عزیز اور جنرل احسان پہلے بھی کرتے رہتے تھے ۔ جنرل احسان نے جنرل مشرف کو سبکدوش کرنے کے بارے میں نواز شریف اور جنرل ضیا کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ خبریں دیں۔ پھر جنرل مشرف نے کہا کہ ہمیں ہر حالت میں فوج کو تحفظ دینا ہوگا۔ اگر اس بار پھر نواز شریف صاحب آرمی چیف کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانے کے سوا اور کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ۔ ہمیں حکم دیاکہ اس سلسلے کی تیاری کر لیں ۔ اس موضوع پر بھی بات ہوئی کہ تختہ الٹنے کے بعد ، فوج کا حکومت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی مارشل لا لگایا جائے گا۔ جنرل مشرف نے جمہوریت پر اپنا اعتماد ظاہر کیا اور کہا ، لیکن ایسی جمہوریت جو عوام کی صحیح نمائندگی کرتی ہو ، انہیں لوٹنے پر ہی نہ لگی رہے ۔ سیاست کے نظام پر بھی بات ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ نظام میں کچھ ایسی تبدیلیاں کریں گے کہ اچھے لوگ حکومت کی کرسیوں پر فائز ہو سکیں اور چور بازاری کا ماحول ختم ہو ۔ پھر شفاف الیکشن کرا کے ، حکومت عوام کے بہترین نمائندوں کو سونپ دیں گے ۔ فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ۔
پھر ایک شام اور اسی طرح ملاقات ہوئی اور تازہ ترین صورت حال جنرل احسان نے پیش کی ۔ ہم نے اپنی تیاریوں کے بارے میں بتایا۔ کچھ کا خیال ہے کہ فوج میں تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ فوج میں کسی بھی غلط کام کایوں کھل کر حکم نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی نہ ایسی تہذیب ہے اور نہ ہی رواج ۔ البتہ کچھ لوگ مل کر سازش کر سکتے ہیں ، جیسا اب ہو رہا تھا ۔ ویسے بھی تختہ الٹنا کوئی ایسا پیچیدہ کام تو ہے نہیں جس کے لیے کوئی لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہو۔
میں نے بھی اپنی تیاری کے بارے میں بتایا کہ چیف کے حکم کے مطابق ، ایک متبادل منصوبہ اسپیشل سروسز گروپ (SSG)پر مبنی بھی بنالیا ہے ، جس میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کارروائی ہوگی ۔ اس پر چیف نے اجازت دی کہ ان کے چنے ہوئے اشخاص کو اعتماد میں لے سکتا ہوں تاکہ تیاری مکمل کی جا سکے۔ میں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آپ بنا حفاظتی دستے کے پرائم منسٹر ہاؤں میں جاتے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کو وہیں بٹھالیں اور نیا چیف لگا دیں۔ پھر نئے چیف کے فعال ہونے تک آپ کو وہی رکھیں، لیکن جنرل مشرف نے اس صورتحال کو ممکن نہ سمجھا۔
شاید ایک یادو ملاقاتیں اور ہوئیں ، صحیح یا دنہیں ۔ کسی ایک ملاقات میں جنرل احسان نے بتایا کہ نواز شریف صاحب ، جنرل مشرف صاحب کو ہٹانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس سلسلے کی ایک خفیہ ملاقات دبئی میں بھی ہوئی ہے ، جس میں جنرل ضیا بھی شامل تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز (کوئٹہ کے کور کمانڈر ) کی بے وفائی اور نقل و حرکت کا قصہ بھی جنرل احسان نے بیان کیا کہ یہ کس طرح نواز شریف صاحب کے ساتھ اس کھیل میں شامل تھے ۔ ان ہی حرکات کی وجہ سے ان کو ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ آٹھ دن چھٹی دے کر ریٹائرمنٹ کی تاریخ آگے بڑھانے پر میں نے اعتراض کیا ، کچھ اور لوگوں نے بھی ۔ جنرل مشرف نے کراچی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی پر پورے بھروسے کا اظہار کیا ، مگر لاہور کے بارے میں اتنے پر اعتماد نہ تھے ۔
111بریگیڈ کو تیاری کا حکم دے دیا گیا تھا ۔ اس سلسلے میں کچھ خطوط بھی بریگیڈ ہیڈکواٹر سے یونٹوں کو لکھے گئے ، جو کسی نے لا کر مجھے بھی دکھائے۔ اس بات پر میں نے ایک ایسی ہی میٹنگ میں جنرل مشرف کے سامنے نکتہ چینی بھی کی کہ بات اس طرح کھول کر نہ کی جائے کہ باہر نکل جائے ۔ ظاہر ہے خط کسی کلرک نے ٹائپ کیا ہوگا۔ ، پھر کسی کلرک نے کھولا ہوگا، یونٹ کی ڈاک میں ایڈجوئنٹ صاحب نے دیکھا ہوگا۔ سب کو خبر پھیل چکی ہوگی ۔ مگر میری شکایت ٹال دی گئی ۔ جنرل محمود بعد میں ناراض بھی ہوئے کہ میں نے یہ بات کیوں کہی ۔ میری باتوں میں کوئی پوشیدہ پہلو نہ ہوتا اور میرے اس بچپنے سے لوگ خائف رہتے ۔ میں نے تو ایک سازشی کے طور سازشیوں کے گروہ میں کھل کر بات کی ۔ مقصد شکایت نہیں تھا۔ مگر آج اتنے دن گزر جانے کے بعد سوچتا ہوں کہ اس طرح کا خط لکھنا غلطی نہیں ہوسکتی۔ اتنی بیوقوفی کوئی نہیں کرتا۔ پھر کیا مقصد تھا ، بات یوں کھولنے کا ؟ شاید سوچا ہو کہ آئی ایس آئی کو یہ خبر ضرور پہنچے گی اور اس طرح وزیراعظم صاحب کو بھی علم ہوگا کہ فوج انہیں ہٹانے والی ہے۔ اس کے ڈرسے نواز شریف صاحب فوج کے چیف کو ہٹانے کی کوشش کریں گے اور یوں فوج کو حکومت گرانے کا بہانہ مل جائے ۔ کہہ نہیں سکتا ، شاید صرف یہ میری سوچ ہی ہو۔
میں کب سے اس انتظار میں تھا کہ کوئی بہتر نظام اس ملک میں آئے جو غریب کے دکھ درد کا مداوا کرے ۔ اس تمام عرصے میں ذرا خیال نہ آیا کہ میں کوئی غلط قدم اٹھانے لگا ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا خوف دل میں اٹھا۔ آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ہول اٹھتا ہے ۔ جو کچھ بعد میں مشرف حکومت میں ہوا، اس کا اندازہ اس وقت نہیں لگاسکا تھا ۔ خواب سے جاگنے میں دیر کردی ۔ کارگل پر جنرل مشرف کی غلط بیانیاں تو بہت بعد میں کھلیں اور اس وقت کون جانتا تھا کہ کس انجام پر وہ اس ملک کو پہنچائیں گے ۔ ان دنوں جنرل مشرف کی باتوں کو دل کے اتنا قریب پایا اور ایسا یقین کیا ، جیسے سب کچھ بدلنے ہی والا ہے ۔ لگاان سا مخلص اور کوئی نہیں‘‘