انٹرنیشنل

10ہزار روہنگیا بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے

ینگون (نیوز وی او سی) اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے تحفظ اطفال نے انکشاف کیا ہے کہ برما میں فوجی آپریشن اور بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت کے نتیجے میں 10ہزار روہنگیا بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچوں کے اہل خانہ برمی افواج اور بودھ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ برما سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچنے والے پناہ گزینوں کی 60فیصد تعداد بچوں پر مشتمل ہے جو شدید غذائی قلت اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ اطفال نے اپنی رپورٹ میں بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا ہے کہ یتیم روہنگیا بچوں کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں کیونکہ بردہ فروش مافیا کے کارندے لاوارث روہنگیا بچوں کو اغوا کر کے انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ عالمی ادارے کی جانب سے بنگلہ دیشی حکام کی مدد سے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق 41پناہ گزین کیمپوں میں ایک سال کے روہنگیا بچوں کی تعداد 12ہزار‘ دو سال سے پانچ تک کے بچوں کی ممکنہ تعداد 70ہزار اور پانچ سال سے پندرہ سال کے بچوں کی ممکنہ تعداد ایک لاکھ 30ہو سکتی ہے۔ جن کا بتدریج ڈیٹا اکٹھا کیا جانا باقی ہے کیونکہ اس وقت بھی روہنگیاﺅں کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ بنگلہ دیش چیریٹی کے پراجیکٹ منیجر معظم حسین نے عالمی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ انہوں نے کوٹو پولانگ کیمپ میں سینکڑوں لاوارث بچوں کو دیکھا ہے جو انتہائی مایوس‘ افسردہ اور بھوکے و بیمار ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے کہ ان کے اور ان کے والدین کے ساتھ برمی فوجیوں نے کیا سلوک کیا اور وہ کس طرح مصیبت جھیل کر بنگلہ دیش پہچے۔ معظم حسین کے بقول کوٹو پولانگ کیمپ میں اس وقت دو ہزار سے زائد لاوارث اور یتیم بچے موجود ہیں جو والدین کی موت کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر ان کیمپوں میں آئے ہیں۔ معظم حسین کے بقول وہ ایسے بچوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں جبکہ مخیر حضرات کے تعاون سے بنگلہ دیشی تنظیموں نے ریلیف کپمیوں میں بچوں کیلئے کھلونوں کے علاوہ ماہرین نفسیات کی ایک چھ رکنی ٹیم بھی بھجوائی ہے کیونکہ یتیم اور لاوارث بچوں کی نفسیاتی مدد علاج کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن کے ایک ماہر رکن جارج گراہم نے تصدیق کی ہے کہ 2لاکھ سے زائد روہنگیا بچوں کو فوری توجہ‘ توانائی والی خوراک‘ دودھ‘ ادویات اور کپڑوں سمیت معاشی تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سیو دی چلڈرن نے بنگلہ دیشی حکومت‘ اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں سے خصوصی تعاون کی درخواست کی ہے اور بصد اصرار کیا ہے کہ بنگلہ دیشی کیمپوں میں موجود بچوں کی رجسٹریشن اور ڈیٹا بیس بنانے کاکام تیزی سے شروع کیا جانا چاہئے اور لاوارث بچوں کی شناخت کر کے انہیں خصوصی تحفظ دیا جا سکے۔ بھارتی جریدے نیو انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے علاقے اورکھیا میں واقع رفیوجی کیمپ میں ایسے متعدد بچے موجود ہیں جو یتیم ہو چکے ہیں جبکہ ایسے بچوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کو اپنے والدین کے بارے میں کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ وہ برمی افواج کے آپریشن میں بچھڑ گئے تھے۔ ان بچوں کی دیکھ بھال اور دوا دارو کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آن لائن جریدے بنگلہ دیشی نیوز کے مطابق یونیسیف کے ایک مقامی عہدیدار نے ٹیکناف میں ان کو بتایا ہے کہ کم از کم دو لاکھ بچے بنگلہ دیشی بچوں میں پہنچے ہیں جو ایک ہفتے یا دس دن سفر کر کے بھوک پیاس کی کیفیت میں یہاں آئے ہیں۔ ان میں والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کی کم از کم تخمینی تعداد 10ہزار ہے اور وہ بیمار ہیں۔ بیشتر بچے دباﺅ میں ہیں اور کھانا درست طریقہ پر نہیں کھا سکتے۔ ان بچوں کی اکثریت بخار‘ کھانسی نزلہ اور دیگر امراض میں مبتلا ہے جبکہ متعدد بچوں کو خسرہ نکل آئی ہے۔ ہزاروں بچوں کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ متعدد بچے گندا پانی پینے کے سبب ڈائریا کا بھی شکار ہیں جن کا علاج و معالجہ عالمی تنظیم ترک ہلال احمر‘ الخدمت‘ سیو دی چلڈرن‘ بنگلہ دیشی چیریٹی‘ ڈاکٹرز ود آﺅٹ بارڈر‘ جماعت اسلامی بنگلہ دیشی اور حفاظت اسلام کے رضاکار کر رہے ہیں۔ عالمی تحفظ اطفال کی تازہ رپورٹ جو بنگلہ دیشی کیمپوں میں یونیسیف کے عہدیدار جان لیپے نے ابتدائی معلومات کی بنیاد پر مرتب کی ہے‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اب تک یونیسیف کی جانب سے 1281بچوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے‘ جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں یا ان کے والدین کو برمی افواج نے شہید کر دیا ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں اور گاﺅں کے ہمراہ ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق برما میں فوجی آپریشن اور دیگر پرتشدد اقعات میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ روہنگیا بچوں کا ہے جن کی ایک بڑی تعداد کو برمی افواج اور مسلح بدھ تنظیموں نے بے دردی سے شہید کر دیا۔ اس سلسلے میں بھارتی نیوز پورٹل این ڈی ٹی وی نے کاکس بازار میں موجود اپنے نمائندے کے حوالے سے بتایا کہ برمی افواج کی جانب سے ہلاک کر کے دریاﺅں اور سمندر میں پھینک دیئے جانے والے سینکڑوں بچوں کی لاشیں بہہ کر بنگلہ دیش پہنچ رہی ہیں جس سے روہنگیاﺅں کی کسمپرسی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیشی جریدے ڈھاکہ ٹربیون نے انکشاف کیا ہے کہ منگل کی شام 9روہنگیاﺅں کی لاشیں بہہ کر بنگلہ دیش میں دریائے ناف کے کنارے پہنچی ہیں جن میں چھ لاشیں بچوں کی ہے۔ کاکس بازار کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ میں موجود 12سالہ بچے رمیز نے عالمی اداروں کو انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنے گاﺅں ٹولاٹولی سے بجان بچا کر افراتفری کے عالم میں بھاگا تھا۔ وہ چونکہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اس نے دریا میںچھلانگ لگا دی اور تیرتا ہوا دور نکل گیا۔ وہاں سے ایک جنگل میں پہنچا اور دو دن کے سفر کے بعد اس کو ایک قافلہ ملا جس کے ساتھ وہ بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ رمیز نے بتایا کہ گاﺅں سے فرار کے وقت اس کو صرف اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ گاﺅں کا گھیراﺅ کرنے والے برمی فوجیوں اور بدھ ملیشیا نے اس کے والدین اور دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا‘ اسے کچھ علم نہیں ہے۔ اب وہ کیمپوں میں اپنے والدین کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں مقیم برمی باشندوں نے اپنے مظلوم روہنگیا مسلمان بھائیوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ کورنگی اور ابراہیم حیدری میں رہاش پذیر برمی باشندوں کا کہنا تھا کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں روہنگیاﺅں کے ساتھ ہیں۔ برمی حکومت کے مظالم کے خلاف نہ صرف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کیلئے امداد بھی بھجوا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ کو روہنگیا مسلمانوں پر مظالم رکوانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ کراچی میں 25سے زائد بنگالی بستیوں میں برما سے آنے والے افراد بھی رہائش پذیر تھے جو برما میں بدھ دہشت گردوں اور برمی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر مختلف اوقات میں یہاں آ کر آباد ہوتے رہے ہیں۔ کورنگی سیکٹر ایف 48کی کچی آبادی ارکان آباد میں بڑی تعداد میں برمی آباد ہیں۔ ایک برمی خاتون فاطمہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہی ہے اور ان کو زبردستی ملک سے نکالا جا رہا ہے جبکہ روہنگیا مسلمان کئی سو سال سے وہاں آباد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری امت مسلمہ کو روہنگیا مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے۔ ارکان آباد میں پاک مسلم برمی ویلفیئر ٹرسٹ گزشتہ کئی سال سے رفاہی کام کر رہا ہے۔ ٹرسٹ کے ذمہ دار فیصل نور حسین کا کہنا تھا کہ وہ ہر سال یہاں سے بقرعید پر قربانی کے جانور اور گوشت برما میں روہنگیا مسلمانوں کو بھیجتے ہیں۔ خواتین اور معصوم بچوں کے قتل پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو سراپا احتجاج بن جانا چاہئے۔ روہنگیا مسلمان کئی سو سال سے برما میں آباد ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں برما میں خودمختاری دی جائے۔ اعجاز برمی کا کہنا تھاکہ برما کے حکمران بدھ مت کے ماننے والے ہیں‘ لیکن بنگلہ دیش میں تو مسلمانوں کی حکومت ہے‘ ان کو مظلوم روہنگیاﺅں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے۔ سلبم برمی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان برمی حکومت کے خلاف احتجاج کریں تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو حقوق مل سکیں۔ مسلم امہ کی جانب سے مہاجرین کی بھرپور امداد کی جائے۔ رفیق برمی نے بتایا کہ کراچی میں مچھر کالوین‘ نورانی بستی کورنگی‘ موسیٰ کالونی‘ اورنگی برمی کالونی سمیت شہر بھر کی برمی آبادیوں کے مکین روہنگیا بھائیوں پر بدترین مظالم پر سخت افسردہ ہیں۔ برمی آبادیوں سے ان کیلئے امداد اکٹھی کی جا رہی ہے‘ جلد ہی کراچی سمیت ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ امین برمی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اگر اجازت دے تو روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد اور دلجوئی کیلئے یہاں سے برمی نوجوان بنگلہ دیش جانے کو تیار ہیں۔ فرمان برمی نے بتایا کہ وہ موسیٰ کالونی میں رہتے ہیں‘ دو روز قبل ان کے کچھ رشتہ دار گھر آئے تھے جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی ویڈیوز دکھائیں‘ جنہیں دیکھ کر سب گھر والے پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے تھے۔ محمد خالد نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک کو برمی حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہئے۔ عبدالسلام ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں‘ ان کی طرح بیشتر برمی غربت کا شکار ہیں لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے روہنگیا بھائیوں کی مدد کیلئے امدادی رقوم بنگلہ دیش بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نور حسن نے بتایا کہ کراچی میں کئی تنظیمیں روہنگیا بھائیوں کی امداد کیلئے سرگرم ہیں۔ برمی خاتون ہاجرہ کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم رکوانے کیلئے دنیا بھر کے اسلامی ممالک اقوام متحدہ پر دباﺅ ڈالیں۔ برما کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔ مچھر کالونی میں مقیم ابوذر برمی کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمان اس وقت شدید مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیشی کیمپوں میں ان کیلئے امداد بھجوائی جائے۔ کراچی کے ہزاروں برمی نوجوان اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کیلئے برما جانے کو تیار ہیں۔ بدھ دہشتگرد وں کا مساجد پر دھاوا ،گھروں سے قیمتی اشیا ءلوٹ کر خواتین کیساتھ شرمناک سلوک

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button