نیوز وی او سی

یہ دھرنا نہیں بلکہ سر زمین پر قبضہ ہے

کالم :- منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی
فیض آباد انٹر چینج پر ایک خودساختہ مذہبی گروہ نے دو ہفتوں سے ناجائز قبصہ کر رکھا ہے قبضہ کرنے والوں کی تعداد محض چند سو ہے لیکن ان کی دہشت اور خوف کا یہ عالم ہے کہ پارلیمنٹ میں اپنی مرضی کی ہر طرح کی قانون سازی کرنے والی حکومت ان کے آگے بھیگی بلی بنی بیٹھی ہے اور حکومت ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے کبھی کچھ بہانہ اور کبھی کوئی خدشہ اور اب تو کمیٹی پر کمیٹی ڈالے جا رہی ہے اور لگتا یہی ہے کہ یہ کمیٹی بھی انہی دھرنے والوں کی ہی نکلنی ہے حکومت بس ادائیگی ہی کر رہی ہے یہ ادائیگی ریاستی کمزوری اور خود ساختہ مفاہمت کے نام پر ہو رہی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سب احکامات کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور اس پر بھی اب رپورٹس منگوانے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے بس آنیاں جانیاں ہی اسی حکومت کی پہچان باقی رہ گئی ہے ڈنڈے اور دیگر آتشی اسلحہ کے ساتھ اسلام آباد کے اہم ترین انٹر چینگ پر قبضہ پر انتہاپسندوں کے قبضے اور حکومتی پسپائی کو عالمی دنیا بھی فکر تشویش کے ساتھ نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ وہ یقیناًسوچ رہی ہوگی کہ ایٹمی ریاست کے اس بلند بانگ دعووں پر کیوں کر یقین کیا جائے جو یہ کہتی ہے کہ ایٹمی اثاثے بلکل محفوظ ہیں۔اس گروہ کے دھرنے کو اب دھرنا نہیں بلکہ قبضہ کہنا ہو گا دھرنا کی نوعیت کچھ اور ہوتی ہے لیکن یہاں اب قبضہ ہے اور ایسی حالت میں جن ملکی سرزمین پر کوئی زبردستی قبضہ کرکے سب اداروں اور ریاست کو ماننے سے انکار کردے تو تب ملکی قانون کو پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ مردانہ کمزوری کا نتیجہ صرف ایک مرد ہی بھگتتاہے لیکن ریاستی کمزوری کا نتیجہ کروڑوں افراد کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے اسی لئے ریاستی کمزوری کے اسباب دور کرنے کی اشد اور پہلی ضرورت ہے اس امر میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ پاکستان میں مذہب کو دشمنان پاکستان کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے پاکستان کے سب دشمن پاکستان کی اس کمزوری کو جان اور پہچان چکے ہیں اسی لئے انہوں نے بھی اس کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے اور اسی لئے ریاست و حکومت دونوں کی پسپائی شروع ہوچکی ہے پاکستان کی عدالتیں ان لوگوں کے بارے میں مذہبی گروہ کا لفض استعمال کرکے یہ اشارہ کرچکی ہیں کہ اس قسم کے گروہ محض فتنے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن تیس سال سے برسراقتدار سیاسی جماعت پھر بھی ان کے ساتھ ایسے معاہدے کی تشکیل کی کوشش کر رہی ہے گویا قبضے والے کسی بیرونی ظاقت کی فوج ہے۔تمام نیوز چینلز پر اور اخباری کالموں میں اس دھرنے کے بارے میں کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ یہ ایک سیاسی و مذہبی باغی گروہ ہے جس نے تمام اسلامی تعلیمات کا اور شعائر کا سرعام مزاق اڑایا ہے اور ان کے خلاف ملکی قوانین کے تحت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے لیکن 23 نومبر تک صورتحال جون کی توں ہی موجود ہے سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے کل سماعت کے دوران اپنے تربیتی درس میں پھر یہ کہا ہے کہ انا اور تکبر سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ سب اناکے لئے ہو رہا ہے رحمت کا سلام کسی کے منہ سے کیوں نہیں نکل رہا ہے سب کے منہ سے گالی گلوچ نکل رہی ہے ایک فاضل جج نے اتفاق سے بہت اچھی بات کہہ دی کہ ایک شخص کی رٹ قائم ہے لیکن ریاست کی رٹ قائم نہیں ہے یہی بات سب مسائل کا حل ہے پاکستان کے اندر ریاست کی رٹ اس وقت قائم نہیں ہوسکتی جب تک حکومتی کاروباری معاملات کو مذہب سے الگ تھلگ نہیں کیا جاتا۔
غضب خدا کا دین اسلام نے پندرہ صدی کا سفر طے کرلییا اور دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا لیکن پاکستان بننے کے بعد ہی پاکستان کے اندر اسلام پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔۔ نہ سعودی عرب میں نہ دوبئی میں نہ انڈونیشیا میں نہ برونائی میں کہیں بھی اسلام خطرے میں نہیں سوائے پاکستان کے۔۔کیوں۔۔ایسا کیوں ہے۔۔ اس پر سب دانشوروں اور محب وطن طبقوں کو سوچنا اور غور کرنا ہوگا۔
اس دھرنے کی وجہ سے ایک بچے کی وفات بھی ہوچکی ہے اور اس بارے لواحقین دعخواست بھی دے چکے ہیں اور یہ قتل کے مترادف ہے۔
حکومت کی اس دھرنے کے حل کا پرامن حل نکالنے کی کوششوں کی ایک حد تک تعریف کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے لیکن اب معاملہ ریاستی رٹ اور ملک کے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے یہ گروہ ایک دو نئی بلکہ درجنوں کے حساب سے آئینی و ملکی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مرکب ہو چکا ہے جس میں ملکی عدالتوں کے احکامات کی خلاف ورزی، شرعی احکام کی تذلیل اور عوامی مفاد عامہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا وغیرہ لہذا
ا اب صورتحال بلکل بدل چکی ہے اور اب یہ ایک باغی گروہ کے زمرے میں آتا ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کے ایک سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اب تک اٹھارہ کیسوں میں مقدمات درج کئے جا چکے ہیں اور169افراد گرفتار کئے چاچکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی مصالحتی کمیٹی کا قیام ہی ایک غلط فیصلہ تھا اب اس کمیٹی کے حوالے سے اخبارات میں شائع خبر کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان ایک ڈرافٹ پر اتفاق رائے قائم ہو رہا ہے۔یہ ایک انتہائی کمزوری کی علامت ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ گویا جیسے کسی دو ملکوں کے درمیان کسی ترقیاتی منصوبے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں۔اگر حکومت کے پاس کوئی ایسی اطلاع ہے کہ اس فتنے کے پیچھے کوئی سازش ہے تو اس کو منظر عام پر لائے۔ مصالتی کمیٹی نے جو خوشخبری سنانے کی بات کی ہے وہ اپنے پاس رکھے ۔
پاکستان کی باقی سیاسی جماعتوں کو اس گروہ کی حرکتوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور خود کو مذہبی جماعتوں کے نیچے لٹانے کی بجائے ان کو گردنوں سے پکڑنا ہوگا۔پاکستان کے اندر سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی و سول حکومتوں کو عالمی سیاست کی بدلتی ہوئی صورتحال کو ذہن میں رکھنا ہوگا اور دنیا سے الگ تھلگ ہونے کی بجائے جمہوری اور سول ریاست کے سنہری اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی۔دین اسلام ایک آسمانی دین ہے اس کو کسی حکومت یا انسان سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ پہلے لاحق ہوا اور نہ کبھی ہوگا لہذا پاکستان کے اندر یہ سب رنگ بازیاں جو مالی و سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اختیار کی جاتی ہیں سیاست دانوں کو ان کے آگے خود کو سرنڈر کرنے کی ضرورت نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button