یورپ میں حجاب و پردہ کا مسئلہ
کالم:- منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی
جرمنی میں موجودہ چانسلرانجیلا میرکل ایک خاتون ہیں جو گزشتہ دس سال سے کامیابی سے جرمنی پر حکمرانی کر رہی ہیں ان کا موجودہ دور اس سال ستمبر میں ختم ہو رہا ہے نے جرمنی سمیت پورے یورپ کی سیاست اور کلچرپر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ملک شام سمیت دیگر ممالک کے تارکین وطن بارے انتہائی فراغ دل کی پالیسی نے جرمنی کے اندر کی سیاست اور ماحول کو نہ صرف یکسر بدل ڈالا ہے بلکہ کڑی آزمائش سے بھی دوچار کردیا ہے پہلی باردائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عام جرمن کی بھی سوچ کچھ کچھ بدلتی دکھائی دیتی ہے اس کو اگر ردعمل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا تاہم موجودہ قیادت کو یقین ہے کہ وہ اس صورتحال پر جلد ہی قابو پا لیں گے جرمنی کا آئین مکمل طور پر سیکولر ہے اور یہاں مذہبی آزادی اور انسانی اقدار و انسانی حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اس لئے یہاں کے ادارے بھی ان کا تحفظ اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں عدالتیں بھی ان کی پاسداری کرنا فخر سمجھتی ہیں تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ اسلامی ممالک کے تارکین وطن نے گزشتہ دو سالوں میں جرمنی کی اس فراخدلانہ مدد کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور جرمنی کے قوانین کو توڑا یہاں کی روایات کو کچلا جس میں عورت کا احترام بھی شامل ہے ان منفی حرکتوں کی وجہ سے حکومت کو بادل ناخواستہ ایسے قدامات کرنے پڑ رہے ہیں جو ملک کے شہریوں اور ملکی قوانین کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہوچکے تھے گزشتہ جمعرات کو پارلیمان کی ایک نششت میں ایک ایسا بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری اداروں میں کام کرنے والی مسلم خواتین کو اہلکاروں کو اپنا چہرہ دکھانا ہوگا اور حجاب پر مکمل پابندی ہوگی جس کی منظور اب ایوان بالا سے لی جائے گی تاہم اس کا اطلاق عوامی مقامات پر نہیں ہو گا ۔حکمران اتحاد جماعت کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی چیک کے حوالے سے منظور ہونے والی تجاویز میں ایک یہ بھی شامل ہے
دہشت گردی کے واقعات کے بعد چند یورپین ممالک میں عوامی اجتماعات پر پورے جسم کے برقعے یا مکمل نقاب پر پابندی لگائی جا چکی ہے تاہم جرمنی ان میں شامل نہیں ہے۔ جرمنی میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی پاسداری کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی میں ایک نقاب پوش خاتون کو پبلک بس میں سوار نہ کرنے پر بس ڈرائیور کے خلاف نہ صرف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ اس بس کی کمپنی کے خلاف بھی کاروائی شروع کردی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ واقعہ جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایک قصبے لیئر میں پیش آیا تھا تفصیلات کے مطابق ایک خاتون جو حاملہ تھیں
اور بس میں سوار ہونے کی کوشش میں اس نے پورا جسم سیاہ برقعے میں اور چہرہ پر ایسے نقاب میں ڈھانپ رکھا تھاکہ صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں ڈرائیور نے اس حلیے میں خاتون کو سوار کرنے سے انکار کردیا تھا حکام کا کہنا ہے کہ اس مقدمہ میں ڈرائیور کو دس ہزار یورو تک جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے اور کمپنی نے بھی اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ ڈرائیور کا اقدام غلط تھا ۔حجاب کے معاملہ پر ہی ایک اور کیس میں برلن کی عدالت نے ایک مسلم ٹیچر کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اس کے حق کو تسلیم کیا ہے تفصیلات کے مطابق ایک خاتون کی برسوں سے برلن میں اسلامیات پڑھایا کرتی تھی اس نے ایک مقامی پرائمری سکول میں ملازمت کے لئے درخواست دی تھی مسلمان خاتون کو نظریاتی طور پر غیر جانبدار رہنے کے لئے ایک صوبائی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو کام کے دوران اپنا ہیڈ اسکارف نہ پہننے کا کہا گیا تھا۔ اس خاتون
نے اپنے خلاف اور برلن صوبے کی انتظامیہ کے حق میں آنے والے فیصلہ کے خلاف ایک اپیل جنوری2015 میں کر رکھی تھی اب اس کا فیصلہ سنایا گیا جو خاتون ٹیچر کے حق میں آیا ہے بڑی عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ برلن صوبے کی انتظامیہ پبلک اسکولوں میں محض اسکارف پہننے کی بنیاد پر امیدواروں کو مسترد نہیں کرسکتی۔ اس فیصلہ کے بعد متاثرہ خاتون کو دو تنخواہوں کے برابر رقم بھی ادا کی جائے گی اس کے علاوہ مقدمہ کے کچھ اخراجات بھی برلن صوبے کی انتظامیہ کو ادا کرنا پڑیں گے
جرمنی سمیت یورپ میں حجاب کا معاملہ دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے اور یورپ کی متعدد حکومتیں بھی اس حوالے سے بہت اقدامات اٹھا چکی ہیں اس میں ہالینڈ قابل ذکر ہے جہاں مخصوص عوامی مقامات پر برقعے اور نقاب پر پابندی عائد کی گئی ہے حالانکہ یہ ملک بہترین روادار ممالک میں سرفہرست تصور کیا جاتا ہے اسی طرح سوئٹزرلینڈ میں بھی اسی قسم کی پابندی کا سننے میں آیا ہے ۔ فرانس میں حجاب کے حوالے سے سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اخباری خبروں کے مطابق فرانس کے ایک جزیرے کورسیکا کے ایک سکول میں اسکارف پہننے پر دو مسلم خواتین کو اسکول سے نکال دیا گیا تھا سکولوں کی طعطیلات کے بعد دو مسلم خواتین اسکارف پہنے بچوں کو چھوڑنے جا رہی تھیں کہ دو مردوں نے روک لیا اور اعتراض کیا کہ جب بچوں کو مذہبی علامات والے لباس پہننے کی اجات نہیں وہاں یہ کیسے سکول میں داخل ہوگئیں ؟ یاد رہے کہ فرانس کے سکولوں میں اساتذہ اور طلبا کے مذہبی علامات والے لباس پہننے پر پابندی ہے اسی طرح کا ایک اور واقعہ جنوبی فرانس کے علاقہ نیس میں پیش آیا تھا جب سمندر کے کنارے خواتین کے برقینی پہن کر ساحل سمندر پر جانے پر پابندی لگا دی تھی لیکن بعد ازاں عدالتی حکم پر یہ پابندی ختم کردی گئی تھی اب تک یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی معاملات پر پابندیوں کو عدالتوں نے ختم کیا ہے یہی عدل و انصاف اہل یورپ کو امن اور سلامتی کی بنیاد فراہم کرے گااہل یورپ اس وقت اپنے انسانی حقوق کی پاسداری اور مذہبی آزادی کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک مثال کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں اور یہی بات تاریخ سے اور آج کے واقعات سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔ ریاست اور مذہب کے گٹھ جوڑ کی سب سے زیادہ بھاری قیمت یورپ ہی نے ادا کی ہوئی ہے مذہبی معاملات میں ریاستی مداخلت ہمیشہ بھیانک نتائج کا موجب بنتی ہے اور ملک کے اندر انتشارہی پیدا ہوتا ہے بے چینی جنم لیتی ہے اہل یورپ سے زیادہ اور کون واقف ہے کہ مذہب اور ریاست کے ٹکراؤ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یورپ کی تاریخ کی تو مثال دی جاتی ہے کہ کس طرح اس نے سینکڑوں برس کی خونریزی کے بعد چرچ اور ریاست کو الگ الگ کرکے امن قائم کرکے ترقی کی ہے لہذا قوی امید یہی ہے کہ ریاست خود کو کو مذہبی معاملات میں مداخلت سے دور رکھے گی اور ملکی قوانین کے ذریعے شرپسندوں کو قابوکرے گی اور صدیوں قبل دہرائی گئی خونی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے مذہبی رواداری کا علم بلند رکھے گی