ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی……..
لاہور: اردو کے عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس ہوگئے۔
28 فروری 1928 کو بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب جالب نے دہلی کے اینگلو عریبک ہائی اسکول میٹرک کیا۔ جالب نے لڑکپن سے ہی مشقِ سخن شروع کردی تھی۔ جالب ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے معاشرتی نا انصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور پھر یہی محسوسات ان کی نظموں کا موضوع بن گئے۔
حبیب جالب ایک عام آدمی کے انداز میں سوچتے تھے اسی لئے وہ آخر دم تک پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے، وہ معاشرے کے ہر اُس پہلو کے خلاف کمر بستہ ہوئے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاالحق کے دور آمریت میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں۔ حبیب جالب نے معاشرے میں ہونے والے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو بھی لکھا وہ زبان زدِ عام ہوا۔
حبيب جالب اپنے وقت کے حکمرانوں کی صعوبتيں اور عام آدمی سے ملنے والی محبتوں کے ساتھ 1993 کو آج ہی کے روز جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انہیں دنیا سے منہ موڑے 24 برس بیت گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی اسی طرح تازہ ہے کہ پڑھنے اور سننے والے میں جدو جہد کی نئی روح پھونک دیتی ہے۔