کالم,انٹرویو

ہاری ہوئی جیت

عدالت عظمیٰ سے آئین کے آرٹیکل 62,63 کے تحت صادق اور امین نہ ہونا ثابت ہونے کے بعد نواز شریف قومی اسمبلی کے حلقہ NA-120سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ساتھ ہی وزارت عظمیٰ بھی گئی ۔ کسی بھی ترقی یافتہ جمہوری معاشرے میں ان حالات میں نہ تو یہ داغ دار شخص اور نہ ہی اس کے خاندان کا کوئی فرد دوبارہ سیاست کرنے اور انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر پاکستان دنیا کے زیادہ تر ممالک کی طرح ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں خواندگی کی شرح بہ مشکل 40فیصد بنتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ سیاسی پختگی کیلئے خواندگی ضروری ہو مگر جہاں غربت ، بیروزگاری ، لاقانونیت ، فرقہ پرستی ، رشوت ستانی اور برادری سسٹم کی حکمرانی ہو وہاں ملک کے 40 فیصد لوگوں کا جاہل ہونا جمہوریت کی بقاء کیلئے یقیناً خطرہ بن جاتا ہے ۔ آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے لاہور کے قدیم حلقوں این اے 95اور این اے 96میں سے تراش کر این اے 120بنایا گیا ۔ یہ شہر کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں نچلے اور نچلے درمیانی طبقے کی آبادی ہے ۔ یہ حلقہ پچھلے 32سالوں سے نواز شریف کا حلقہ رہا ہے ۔ سب سے پہلے وہ 1985میںیہاں سے قومی اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اس نشست سے دستبردار ہوگئے ۔ جلاوطنی کے عرصے کے علاوہ وہ ہر انتخاب میں یہاں سے کامیاب ہوئے ۔ نواز شریف کا حلقہ ہونے کی وجہ سے این اے 120کو یہ فائدہ تو نہیں ہوا کہ یہاں کوئی ترقی کے کام ہوتے کیونکہ نواز شریف کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد وہ اس حلقے کا کبھی بھی رخ نہیں کرتے مگر اوپر دی گئی وجوہات کی بناء پر وہ یہاں سے جیتتے رہے ۔ نقصان یہ پہنچا کہ کسی پولیس والے کو اس حلقے میں آنے کی ہمت نہیں ہوتی اور یہ حلقہ جوئے کے اڈوں اور دیگر سماجی برائیوں کا اڈہ بن گیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نواز شریف اور ان کے گھر والوں نے قبول نہیں کیا ۔ ان کی ذہنی سوچ ایسی ہے کہ وہ اقتدار سے ہٹائے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اپنی حرکات کی وجہ سے وہ تینوں دفعہ وزارت عظمیٰ سے غیر انتخابی طریقے سے ہٹائے گئے ۔ ان میں سے ایک بار جنرل وحید کاکڑ کی وجہ سے اور ایک جنرل مشرف کی وجہ سے گو دونوں ہی بار وجوہات مختلف اور پیچیدہ تھیں جن کی تفصیلات میں جانا اس کالم میں ممکن نہیں ۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ ان دونوں اوقات میں نواز شریف کے زوال کا سسب وہ خود اور ان کی مغرور اور ناعاقبت اندیش طبیعت تھی ۔ یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے کہ نواز شریف کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی سیٹ کسی ” غیر شریف” شخص کو جائے گی ۔ اغلبہ خیال یہی تھا کہ قرعہ فال مریم نواز کے نام نکلے گا کیونکہ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں وہ پارٹی کے میڈیا سیل کی سربراہ ہونے کی حیثیت میں خاصی ”شہرت” پاچکی تھیں ۔ فوج اور عدلیہ کی دشمنی کی وجہ سے وہ والد محترم کے بہت قریب آچکی تھیں اور بدنام زمانہ ڈان لیکس کے بعد تو وہ نواز شریف کی آنکھوں کا تارہ بن گئی تھیں مگر تمام اندازوں کے برعکس انتخاب کلثوم نواز کا ہوا جس کی وجہ ان کی جمہوریت کیلئے ادا کی گئی خدمات بتائی گئیں حالانکہ بیگم کلثوم نواز کا ”سیاسی کیرئیر” صرف اتنا تھا کہ جنرل مشرف کی حکومت سے معاہدہ کرکے وہ اپنے شوہر کو قید سے چھڑا کر ملک سے باہر لے گئی تھیں ۔ بیگم کلثوم نواز کو پارٹی کا ٹکٹ ملنے پر عوام نے عموماً اور مسلم لیگ ن کے سمجھدار لوگوں نے خصوصاً اطمیمنان کا سانس لیا کہ اب اتنخابی مہم میں فوج اور عدلیہ پر تبرہ بھیجنے کا عمل اگر رکا نہیں تو کم ضرور ہوگا مگر فلک کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ کلثوم نواز بیمار ہوگئیں اور ماضی کی روایات برقرار رکھتے ہوئے بیرون ملک چلی گئیں ۔ مریم نواز نے ضمنی انتخاب کی مہم اپنے ہاتھ میں لے لی اور ہر آنے والے دن کے ساتھ فوج اور عدلیہ کے خلاف ان کی ہرزہ سرائی بڑھتی ہی گئی ۔ کبھی وہ فوج کو ان دیکھی اور کبھی غیر مرئی طاقتیں کہتیں ۔ عدالت عظمیٰ کے ان پانچ معزز جج صاحبان کو وہ ”پانچ اشخصاص” کہہ کر ان کے فیصلے پر تنقید کرتیں جنہوں نے ان کے والد صاحب کو صادق اور امین نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ تھمایا تھا ۔ بات یہیں نہیں ختم ہوئی بلکہ علی الاعلان انہوں نے نہ صرف عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا جیسا کہ ان سے پہلے ان کے والد بزگوار کرچکے تھے بلکہ اپنے ووٹروں کو فیصلے کو مسترد کرنے کا نہ صرف حکم دیا بلکہ ان سے اس بات کا وعدہ بھی لیا یہ غلاظت اگر ایک آدھ بار ہوتی تو شاید انتخاب کی گرما گرمی سمجھ کر نظر انداز کی جاسکتی تھی مگر بدقسمتی سے مریم نواز نے اسے اپنی والدہ کی انتخابی مہم کا نعرہ بنادیا اور بار بار بلکہ ہر خطاب میں کہتی رہیں کہ مسلم لیگ نون کی فتح کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے ۔ ان کے یہ اقوال زریں انتخاب کے خاتمے تک ہی جاری نہ رہے بلکہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجہ آنے کے بعد اپنی فتح کی تقریر کی زینت بنے ۔ یہ سمجھنے سے ذہن قاصر ہے کہ اس قدر شدید اور متواتر توہین عدالت پر معزز جج صاحبان کی خاموشی کو صبر کی کس درجہ بندی میں رکھا جائے ۔
اس ضمنی انتخاب کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی تھا کہ پہلے دن سے لے کر آخری دن تک مریم نواز پوری حکومتی مشینری کو کھل کر استعمال کرتی رہیں دوپہر سے دیگر امیدواروں کے برعکس انہیں پورا سرکاری پروٹوکول دیا گیا ۔ پولیس کے دستے ان کو گھیرے میں لئے رہے ۔ سرکاری گاڑیاں ان کے استعمال میں رہیں ۔ وزیر ، ایم این اے ، ایم پی اے ، ڈسٹرکٹ ناظم سے لے کر یونین کونسل تک کے عہدیدار ان کے احکامات بجا لاتے رہے ۔ ضمنی انتخاب کے دن صبح کے وقت ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر اپنے ووٹروں کو حلوہ پوری پیش کی جاتی رہی ۔ دوپہر ہونے پر تواضح بریانی کی دیگوں میں تبدیل ہوگئی اور یہ تمام کام الیکشن کمیشن کے کرتا دھرتاؤں کے نہ صرف سامنے ہوتے رہے بلکہ الیکٹرونک میڈیا پر بھی دکھائے گئے ۔ انتخابی جلسوں میں کھلم کھلا کرنسی نوٹ نچھاور کئے جاتے رہے ۔ انتخابات کتنے صاف شفاف تھے فیصلہ خود کیجئے کیونکہ الیکشن کمیشن ایسا کرنے سے قاصر ہے ۔ قارئین ! فتح اور شکست ، جیت اور ہار کے درمیان سدا سے ایک اخلاقی حد ، ایک اخلاقی لکیر قائم رہتی ہے جو غازی صلاح الدین اور رچرڈ شیردل سے لے کر سکندر اعظم اور راجہ پورس تک ہمیشہ قائم رہی ، جس کسی نے یہ اخلاقی حد پار کی تاریخ نے اسے معاف نہیں کیا۔ اس لئے کلثوم نواز اور مریم نواز فتح یاب ہو کر بھی شکست کھا گئیں اور ان کی جیت دراصل ایک ہاری ہوئی جیت ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button